جب لالو پرساد نے ’قربانی‘ کی کلیجی پکوا کر کھائی!


نئی دہلی : جب میں ممبئی ایئر پورٹ پہ اترا تو 21 اگست 2018 تاریخ تھی اور بقرہ عید (عید الاضحیٰ) کا دن تھا۔ میری آمد کا مقصد راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے سربراہ لالو پرساد یادیو سے ملاقات تھی جو دل کا آپریشن کرانے کے بعد ایشین ہارٹ انسٹی ٹیوٹ میں زیرعلاج تھے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ ممبئی کے باندرہ کرلا کمپلیکس میں واقع تھا۔

یہ بات بھارتی اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ میں نالن ورما ( Nalin Verma) نے لکھی ہے جو بھارتی بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو کی تحریر کردہ خودنوشت سوانح حیات ’ گوپال گنج ٹو رائے سینا- مائی پولیٹیکل جرنی‘ کے شریک مصنف بھی ہیں۔

ورما کا کہنا ہے کہ ’’میں لالو کی زیست کا احاطہ کرتی کتاب ’گوپال گنج  ٹو رائے سینا- مائی پالیٹیکل جرنی‘ میں شامل کیے جانے والے کچھ حقائق کی تصدیق کے لیے ان سے ملنے جا رہا تھا۔

اخبار میں وہ لکھتے ہیں کہ جب میں نے ایک آٹو رکشہ کو رکنے کا اشارہ کیا اور بیٹھتے ہوئے میں نے ڈرائیور سے کہا کہ کیا وہ آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو کو جانتے ہیں؟

نالن ورما لکھتے ہیں کہ وہ آٹورکشہ ڈرائیور مسلمان تھا۔ اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ہاں! وہ جانتا ہے اور ا س بات سے بھی واقف ہے کہ وہ یہیں اسی اسپتال میں زیر علاج ہیں جہاں میں جا رہا تھا۔

دی ٹیلی گراف میں وہ رقم طراز ہیں کہ جیسے ہی میں نے اس سے کہا کہ میں انہی لالو پرشاد یادیو کو دیکھنے اسپتال جارہا ہوں تو مشرقی اتر پردیش کے کسی علاقے سے تعلق رکھنے والے آٹو ڈرائیور جس کا نام بعد میں انصاری معلوم ہوا، نے اچانک رکشہ کو بریک لگا کر سڑک کی ایک سمت اسے روک لیا۔

انصاری رکشہ ڈرائیور نے اس کے بعد مجھ سے کہا کہ اگر میں اس کی مدد کر کے لالو سے اس کی ملاقات کرا دوں گا تو وہ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا۔

ورما نہیں جانتے تھے کہ وہ اس کی ملاقات کرا پائیں گے یا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ سچی بات یہ بھی ہے کہ میری ملاقات کرانے میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں تھی مگر رکشہ ڈرائیور نے رخصت ہوتے وقت ایک بات ایسی کہی کہ جو میرے دل پہ اثر کر گئی۔

آٹو رکشہ ڈرائیور نے انہیں کہا کہ اگر مجھے صدی کے سپر اسٹار امیتابھ بچن اور لالو پرساد میں سے کسی ایک سے ملنا ہو تو میں لالو پرساد سے ملنا پسند کروں گا۔

وہ کہتے ہیں کہ رکشہ ڈرائیور کا دل رکھنے کے لیے میں نے اس سے اس کا موبائل فون نمبرایک کاغذ پر لے لیا اور حسب عادت اسے اپنی جیب میں بھی رکھ لیا۔

انہوں نے لکھا ہے کہ جب آٹو ڈرائیور نے مجھے اسپتال کے باہر اتاردیا تو لالو پرساد یادیو کے اس ملازم نے مجھے ان کے کمرے تک پہنچا دیا جسے انہوں نے مجھے لینے کے لیے اسپتال میں پہلے ہی نیچے بھیج رکھا تھا۔ اسپتال میں تھوڑی ہی دیر بعد روپا اور رودرا شرما بھی آگئیں اور ہم لالو جی کی مصروفیات دیکھنے میں مصروف ہو گئے۔

ورما نے تفصیل سے لکھا ہے کہ اسپتال کا کیا ماحول تھا؟ کس طرح ڈاکٹرز اورنرسیں ان کا معائنہ بار بار کررہے تھے؟ کس طرح وہ آنے والوں سے میل ملاقات کررہے تھے؟ اورساتھ ساتھ اپنا بلڈ پریشر بھی چیک کرارہے تھے؟

اسپتال کے کمرے کی بہترین عکاسی کرتے ہوئے انہوں نے بعض ان کی بذلہ سخنی کی مثالیں بھی دی ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ ایک نرس کو انہوں نے کس طرح کہا کہ شادی کر لو۔

نالن ورما لکھتے ہیں کہ تقریباً دو گھنٹے تک ان کے پاس رہنے اور بات چیت کرنےکے بعد جب میں نکلنے لگا تو اچانک مجھے اس رکشہ ڈرائیور کا خیال آیا جس پر میں نے لالو پرساد یادیو سے کہا کہ میں جس آٹو میں یہاں تک آیا ہوں اس کا ڈرائیور آپ کا بڑا مداح ہے اور ساتھ ہی پوچھا کہ کیا آپ اس سے ملنا چاہیں گے؟

کتاب کے شریک مصنف نے لکھا ہے کہ لالو پرشاد یادیو نے جیسے سنا ان میں ایک طرح سے توانائی بھر گئی اور انہوں نے مجھ سے بے ساختہ پوچھا کہ اس کا نمبر لیا ہے ؟ کیا ہے؟

دی ٹیلی گراف میں انہوں نے لکھا ہے کہ پھر میرے جواب کا انتظار کیے بغیر انہوں نے مجھ سے رکشہ ڈرائیور کا نمر مانگا تو میں نے جیب سے وہ کاغذ نکال کران کی طرف بڑھا دیا۔

لالو پرساد یادیو نے کاغذ کا ٹکڑا پکڑا اور پھر اپنی پارٹی کے ایم ایل اے بھولا یادیو سے کہا کہ وہ ڈرائیور سے بات کرائیں۔ بھولا نے فون ملایا اور لالو یادو کو دے دیا جس کے بعد لالو نے ڈرائیور سے کہا ’’آپ کا نام کیا ہے؟ آپ جلدی ملنے آجاؤ۔ ساتھ میں ایک پاؤ کچی کلیجی لیتے آنا، آج عید کا دن ہے اورہاں! قربانی والی کلیجی لے کر آنا‘‘۔

نالن ورما لکھتے ہیں کہ ڈرائیور سے بات کرنے کے بعد لالو پرساد یادیو نے بھولا یادیو سے کہا کہ باہر سے ملنے کے لئے آئے رہنماؤں سے کہہ دو کہ میں ان سے کچھ دیر بعد ملوں گا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ کچھ دیر بعد ڈرائیور وہاں ایک سفید پلاسٹک کی تھیلی میں کلیجی لے کر پہنچ گیا تو لالو کو دیکھتے ہی رونے لگا۔

وہ کہتے ہیں کہ لالو پرساد یادیو نے یہ دیکھ کر ڈرائیور سے کہا کہ رونا نہیں ہے اور ہاں! آپ لکشمن کے ساتھ جائیے اور کلیجی کو سرسوں کے تیل، ادرک، ہری مرچ، کالی مرچ اور نمک میں پکا کر لائیں تو ہم مل بیٹھ کر کھائیں گے۔

دی ٹیلی گراف میں انہوں نے لکھا ہے کہ لکشمن فوراً انصاری کواس کچن کی طرف لے گیا جو اسپتال انتظامیہ نے لالو کے لیے فراہم کیا تھا۔ کچھ دیر میں دونوں نے جب کلیجی بنالی اور اسے لے کر لالو کے پاس آ گئے تو لالو فوراً بیڈ پر بیٹھ گئے اور کہا کہ ہم سب ایک ہی پلیٹ میں کلیجی کھائیں گے۔

ورما نے لکھا ہے کہ ڈرائیور نے اس پرکہا کہ حضور! میں آپ کی پلیٹ میں کیسے کھاؤں! میں غریب آدمی ہوں رکشہ چلاتا ہوں۔ آپ سے ملا تو جیسے مجھے سب کچھ مل گیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ لا لو پرساد یادیو نے اس پرپیار سے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ چپ چاپ آکر ساتھ میں کھانا کھاؤ وگرنہ دو تھپڑ ماروں گا۔ اس کے بعد رکشہ ڈرائیور انصاری ان کے ساتھ ہی پلیٹ میں کھانا کھانے لگا۔

نالن ورما کہتے ہیں کہ ابھی کلیجی کھانے کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی وقت وہاں نرس آ گئی اور اس نے منع کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ڈاکٹر نے میٹ کھانے سے منع کیا ہے؟

وہ لکھتے ہیں کہ لالو پرساد یادیو نے یہ بات سنی اوراس پر کہا کہ ڈاکٹر صاحب بھولے ہیں، ان کو نہیں معلوم کہ انصاری کے گوشت میں جو شفا ہے وہ پورے اسپتال کی دوائیوں میں بھی نہیں ہے کیونکہ یہ قربانی کا گوشت ہے۔

نالن ورما کے مطابق اتنا کہہ کر لالو پرساد یادیو ہماری جانب مڑے اور پھر گویا ہوئے کہ مجھے غریب لوگوں سے بہت محبت ملی ہے، مجھے اور کیا چاہیے! اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں موت اور بیماری کے بارے میں نہیں سوچتا کیونکہ زندگی بھگوان کے ہاتھ میں ہے۔

اس کے بعد انہوں نے آٹو رکشہ ڈرائیور سے کہا کہ انصاری اب جاؤ! کوئی تکلیف ہو تو بتانا اور پھر ملنا۔ یہ سن کر انصاری نے تقریباً روتے ہوئے کہا کہ یا اللہ! لالو جی کو آباد رکھنا اوررخصت ہو گیا۔

نالن ورما نے لکھا ہے کہ جب انصاری رکشہ ڈرائیور رخصت ہوا تو اس وقت شب کے آٹھ بج چکے تھے،لالو پرساد یادیو نے ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے تم لوگوں کو کھانے پہ اس لیے مدعو نہیں کیا کہ وہ پہلے ہی تین چار افراد کے لے پورا نہیں تھا تو تم  لوگوں کو کیا بلاتا؟ یہ کہہ کر لالو پرساد یادیو نے کہاکہ اب اپنے ہوٹل جاؤ اور بہترین کھانے و ڈرنک سے لطف اندوز ہو۔


متعلقہ خبریں