ٹائم میگزین نے مودی کو ہندوستان تقسیم کرنے والا قرار دے دیا


نئی دہلی: بھارت میں ہونے والے لوک سبھا کے عام انتخابات کے آخری دو مراحل ابھی باقی ہیں۔ ان دو مراحل میں کامیابی کے لیے جہاں ایک جانب حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پوری جان ماررہی ہے تو وہیں دوسری جانب ماضی میں ہندوستان کی سیاہ و سفید کی مالک رہ چکنے والی کانگریس بھی پورا زور لگارہی ہے۔

بی جے پی کی عام انتخابات میں سیاسی ’مشکلات‘ اس لحاظ سے دیگر کی نسبت زیادہ ہیں کہ اسے گزشتہ پانچ سال کی حکومتی کارکردگی کا ’تخمینہ‘ بھی پیش کرنا ہے جو سیاسی مبصرین کے مطابق کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق جس طرح بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی کی سیاسی مشکلات بڑھ رہی ہیں بالکل اسی طرح وزیراعظم نریندر مودی بھی سخت سیاسی دباؤ کا شکار دکھائی دے رہے ہیں۔

سماج وادی پارٹی نے شاید یہی کچھ ’بھانپتے‘ ہوئے مودی کے مدمقابل بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس سے برطرف کیے جانے والے تیج بہادرکو اپنا انتخابی امیدوار نامزد کردیا تھا۔

۔۔۔لیکن یہ وزیراعظم نریندر مودی کی خوش قسمتی تھی کہ تیج بہادر کے کاغذات نامزدگی الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مسترد کردیے اور عدالت جانے کا بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ان کی جانب سے پیش کردہ مؤقف کو عدالت نے تسلیم نہیں کیا۔

بھارت سمیت دنیا میں تیج بہادرکو اس لحاظ سے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی کہ انہوں نے غیر معیاری کھانا فراہم کیے جانے پر ویڈیو پیغام کے ذریعے اسے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیئر کردیا تھا۔

ان کی تیارکردہ ویڈیو وائرل ہوگئی تھی جس کے بعد انہیں بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس سے برطرف کردیا گیا لیکن وہ عوام الناس میں انتہائی ’مقبول‘ قرار دیے جاتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ وہ انتخابی میدان میں وزیراعظم نریندر مودی کو سخت مشکلات سے دوچار کریں گے مگر بہت سے مودی مخالفین کی یہ ’خواہش‘ پوری نہ ہوسکی کیونکہ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کی وجہ سے وہ انتخابی میدان سے ہی باہر ہوگئے ہیں۔

تیج بہادر کی وارانسی کے انتخابی حلقے میں عوامی اور سیاسی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بھارتی فوج سے برطرف کیے گئے سابق فوجیوں نے ان کے حلقہ انتخاب میں باقاعدہ سیاسی ’مورچے‘ سنبھال لیے تھے اور وہ اپنے ’خرچ‘ پر مودی کے خلاف رائے عامہ ہموار کررہے تھے۔

۔۔۔مگر نریندر مودی کو تیج بہادر کے انتخابی میدان سے ’آؤٹ‘ ہونے کی ملنے والی ’خوشخبری‘اس وقت کافور ہوگئی جب دنیا کے مؤقر ’ٹائم میگزین‘ نے ان کی تصویر سے مزین ٹائٹل کی کور اسٹوری انتہائی خطرناک اور بھارتی اخبارات کے مطابق ’متنازعہ‘ سرخی کے ساتھ شائع کردی۔

 

بین الاقوامی ٹائم میگزین نے اپنے تازہ شمارہ میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے پانچ سال کے دور اقتدار کی ’آڈٹ رپورٹ‘ بھی پیش کی ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق یقیناً اس اسٹوری سے نریندر مودی اور ان کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کوسیاسی و انتخابی میدان دھچکہ ضرور لگے گا۔

ٹائم میگزین نے وزیراعظم نریندر مودی کی تصویر کے ساتھ سرخی جمائی ہے کہ’’ انڈیاز ڈیوائیڈر اِن چیف‘‘، یعنی ہندوستان کو تقسیم کرنے والااہم شخص۔

میگزین کی کور اسٹوری میں لوک سبھا کے جاری انتخابات میں ہونے والے گٹھ جوڑ اور حکمران جماعت کے گزشتہ پانچ سالوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

ٹائم میگزین نے اپنی کور اسٹوری’’کین دی ورلڈس لارجسٹ ڈیموکریسی انڈیور اَنڈر فائیو ایئرس آف مودی گورنمنٹ؟‘‘، یعنی کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مودی حکومت کے مزید پانچ سال برداشت کر پائے گی؟ کے عنوان سے شائع کی ہے۔

میگزین نے مودی دور حکومت پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور اس کا پنڈت جواہر لال نہرو کے سماج اور ہندوستان کی موجودہ سماجی صورتحال سے تقابلی جائزہ لیا ہے۔

دلچسپ بات ہے کہ ٹائم میگزین کی کوراسٹوری آتش تاثیر نے رقم کی ہے۔

آتش تاثیر نے لکھا ہے کہ ’’نریندر مودی نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کے جذبے کوپروان چڑھانے کی کسی قسم کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔

مضمون نگار آتش تاثیر کا مؤقف ہے کہ نریندر مودی کا برسر اقتدار آنا اس امر کا غماز ہے کہ وہ ہندوستان جس کے لبرل کلچر کا بہت تذکرہ کیا جاتا تھا وہاں ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ وہاں تو مذہبی تفریق، مسلمانوں کے خلاف جذبات اور ذات پر مبنی شدت پسندی پھل پھول رہی تھی۔

وزیراعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ مودی نے اپنی تقاریراور بیانیوں میں ہندوستان کی عظیم شخصیات پر رکیک حملے کیے جن میں نہرو جیسی ’مہان‘ ہستی بھی شامل تھی۔

مضمون نگار کے مطابق مودی مسلسل کانگریس مکت ہندوستان کی بات کرتے ہیں اور کبھی انہوں نے ہندو مسلم بھارئی چارے کے فروغ کی کسی بھی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔

ٹائم نے اپنی کور اسٹوری میں 1984 کے سکھ فسادات اور 2002 میں گجرات کے اندر ہونے والے فسادات کا بھی حوالہ دیا ہے۔

مضمون نگار کے مطابق کانگریس بھی 1984 کے فسادات کے الزامات سے یکسربری الذمہ نہیں ہے مگر اس نے فسادات کے دوران پرتشدد کارروائیوں سے خود کو الگ تھلگ رکھا جب کہ نریندر مودی 2002 کے فسادات کے دوران اپنی ’خاموشی‘ سے ’فسادیوں کے دوست‘ ثابت ہوئے۔

کور اسٹوری میں لکھا گیا ہے کہ 2014 میں لوگوں کے درمیان پروان چڑھتے غصے کو معاشی وعدوں میں بدل دیا گیا اور ملازمت و ترقی کی بات کی  گئی مگر حالات نے بتایا کہ وہ سب امیدوں کا انتخاب تھا جس پر اس وقت یقین کرنا مشکل لگتا ہے۔

آتش تاثیر کے مطابق نریندر مودی کے ذریعے  معاشی ’انقلاب‘ بپا کرنے یا کوئی ’معجزہ‘ ہوجانے کا وعدہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ سخت اظہار افسوس کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے ملک میں ’زہریلا مذہبی نیشنل ازم‘ کا ماحول تیار کرنے میں ضرور مدد کی ہے۔

ٹائم میگزین کی اسٹوری میں ’موب لنچنگ‘ اور ’گئو رکشکوں‘ کے ہاتھوں کیے گئے تشدد کا بھی تذکرہ ہے۔ کور اسٹوری کے مطابق گائے کے حوالے سے متعدد مرتبہ مسلمانوں پر حملے کیے گئے اور ایسا بار بار ہوا اور انہیں مارا بھی گیا۔

آتش تاثیر نے ٹائم میگزین کی کور اسٹوری تحریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بھی ایسا مہینہ نہیں گزرا جب لوگوں کے اسمارٹ فون پر وہ تصاویر نہ آئی ہوں کہ جس میں ناراض ہندو بھیڑ ایک مسلمان کو پیٹ نہ رہی ہو۔

عالمی شہرت یافتہ ٹائم‘ میگزین کی کور اسٹوری میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔  انہوں نے لکھا ہے کہ 2017 میں اتر پردیش میں جب بی جے پی نے انتخاب جیتا تو ’بھگوا‘ پہننے اور نفرت پھیلانے والے ایک شخص (مہنت) کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔

دلچسپ امر ہے کہ ٹائم‘ میگزین نے 15-2014 میں نریندر مودی کو دنیا کے 100 بااثر لوگوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔

ٹائم میگزین کی کور اسٹوری تحریر کرنے والے آتش تاثیر مرحوم گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور بھارتی صحافی تلوین سنگھ کے بیٹے ہیں۔ وہ برطانیہ میں مقیم صحافی ہیں اور دنیا کے مؤقر اخبارات میں تسلسل کے ساتھ لکھتے ہیں۔ ان کی تحریر کردہ متعدد کتب منظر عام پر آچکی ہیں جن میں Stranger to Historyاور  The Way Things Were,The Twice- Born شامل ہیں۔


متعلقہ خبریں