امریکہ ایران تناؤ بڑھ گیا : بحری بیڑے اور بمبار طیارے پہنچ گئے

امریکہ ایران تناؤ بڑھ گیا : بحری بیڑے اور بمبار طیارے پہنچ گئے

اسلام آباد: امریکہ نے دفاعی میزائل سسٹم ’پیٹریاٹ‘ کے ہمراہ اپنا ایک اور جنگی بحری بیڑا جو اسٹرائیک گروپ سے لیس ہے کو مشرق وسطیٰ کی سمت روانہ کردیا ہے۔ مشرق وسطیٰ بھیجا جانے والا بحری بیڑا یو ایس ایس آر لنگٹن خلیج فارس میں پہلے سے موجود یو ایس ایس ابراہم لنکن سے جا کر ملے گا۔ امریکہ کا بحری بیڑا ابراہم لنکن چند روز قبل خلیج فارس بھیجا گیا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ اور امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کے چار جدید طیارے بی- 52 بمبار قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے پر اتر چکے ہیں۔

خبررساں اداروں کے مطابق امریکہ کا اس ضمن میں مؤقف ہے کہ یہ تعیناتیاں ایران کی جانب سے خطے میں امریکی افواج کو لاحق خطرات کے پیش نظر کی گئی ہیں۔

بی بی سی کے مطابق ایران نے امریکی مؤقف کو احمقانہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف اسے مسترد کیا ہے بلکہ اس کا کہنا ہے کہ امریکی اقدامات نفسیاتی جنگی حربے ہیں جن کا مقصد اسے دھمکانا ہے۔

سی این اے نیوز ایجنسی نے ایران کی خبررساں ایجنسی ’اثنا‘ (ISNA) کے حوالے سے کہا ہے کہ ایک سینئر ایرانی عالم یوسف تباتبائی نژاد نے اصفہان میں کہا ہے کہ بلین ڈالرز مالیت کا امریکی بحرہ بیڑا صرف ایک میزائل سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔

عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکہ کا اس ضمن میں مؤقف ہے کہ وہ ایرانی حکومت کی سرگرمیوں کونہایت قریب سے دیکھ رہا ہے اور اسی وجہ سے علاقے میں  پیٹریاٹ دفاعی سسٹم کو تعینات کیا گیا ہے۔

غیر ملکی نشریاتی اداروں کے مطابق امریکی بحریہ کا کہنا ہے کہ ابراہم لنکن نامی طیارہ بردار بحری بیڑا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر بحیرہ روم سے بحیرہ احمر میں داخل ہوا ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں سینٹرل کمانڈ یا سینٹکام کہلانے والی امریکی کمان کے تحت امریکی تنصیبات کی حفاظت کرے گا۔

بی بی سی کے دفاعی اورسفارتی نامہ نگار جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑے اور جنگی گروپ کو خلیج میں بھیجنا غیر معمولی اقدام نہیں ہے لیکن اس سے کشیدگی کو ہوا مل سکتی ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے دو دن قبل جے سے پی او اے کی دو شقوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور ساتھ ہی الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر 60 دنوں میں یورپی طاقتوں نے 2015 کے جوہری معاہدے کے مطابق ایران پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے عملی اقدامات نہ کیے تو ایران مزید شقیں بھی معطل کردے گا۔

ایران کے اعلان کے بعد یورپین یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ اور فرانس، برطانیہ و جرمنی کے وزرائے خارجہ نے ایران سے کہا ہے کہ جے سی پی او اے کے تحت جو کچھ بھی طے پایا ہے اس پر اُسی طرح من وعن عمل کرے اور کشیدگی کو فروغ دینے والے اقدامات سے گریز کرے۔

ایران اور دیگر چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے 2015 کے جوہری معاہدے کو جے سی پی او اے (منصوبہ برائے مشترکہ جامع عمل) کہا جاتا ہے۔

2015 میں اقوامِ متحدہ سمیت امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے ایران کے ساتھ طے پانے والے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

معاہدے میں طے پایا تھا کہ ایران اپنے جوہری منصوبے کو کم تر درجے تک لے جائے گا اور صرف تین فیصد یورینیم افزودہ کرسکے گا۔ اس معاہدے کے جواب میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں میں نرمی کی گئی تھی لیکن جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے یکطرفہ طور پر معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

وی او اے کے مطابق امریکی سینٹرل کمان کے ترجمان کیپٹن ولیم اربن کا کہنا ہے کہ اسٹرائیک گروپ سوئز کینال کے ذریعے پہنچا ہے۔

انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کے دن دو بی- 52 بمبار طیارے خطے میں پہنچے ہیں جب کہ دو بدھ کے دن پہنچ گئے تھے۔

وی او اے کیے مطابق بمبار طیارے اِس وقت قطر کے العبید فضائی اڈے پر موجود ہیں۔ اس بات کی تصدیق ایک دفاعی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرکی ہے۔

سینٹکام کے کمانڈر جنرل کنیتھ مکینزی نے واشنگٹن میں کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں مزید فوجی اثاثوں کی درخواست ایران کی جانب سے کشیدگی پر مبنی کئی اقسام کے انتباہ کے بعد براہ راست جواب کی ضرورت کے پیش نظر کی گئی تھی۔

ایئر فورس کے چیف آف اسٹاف جنرل ڈیوڈ گولڈفائن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت میں کہا ہے کہ فوری فوجی کمک سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ہم کسی بھی خطرے کا جواب دے سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وقت اورجگہ کا تعین کرکے ہم مناسب جواب دیں گے۔

ایران کی خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘ کے مطابق ایران کے پاسدارنِ انقلاب کے ایک اعلیٰ کمانڈرنے کہا ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل بالواسطہ طور پر ایرانی رہنماؤں سے کہا تھا کہ وہ انہیں ٹیلی فون کریں۔

عالمی خبررساں ایجنسی نے دو دن قبل خبر دی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہا تھا کہ میں ایران کے لیے جو بات پسند کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ مجھے ٹیلی فون کریں۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے کی جانے والی یہ بات واشنگٹن کی پالیسی میں ’کچھ نہ کچھ‘ اور ’کسی نہ کسی‘ سطح پر آنے والی تبدیلی کی غمازی کرتی ہے۔

ایران کی خبررساں ایجنسی تسنیم نے جنرل یداللہ جوانی کے حوالے سے کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ ایران کے خلاف فوجی اقدام کی ہمت نہیں کرے گا۔

خبررساں ادارے کے مطابق امریکہ کے قائم مقام سیکریٹری دفاع پیٹرک شناہان کا کہنا تھا کہ ایران کو سمجھنا چاہیے کہ امریکہ کے خلاف حملے کا مناسب جواب دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں اس لیے ہیں تاکہ دہشت گردی کو شکست دیں اور سیکیورٹی میں بہتری لائیں۔

پیٹرک شناہان کے مطابق ہم مخفی بغاوتوں سے نمٹنے کا کام کر رہے ہیں لیکن ہم اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پرتشدد انتہاپسندی سے مقابلہ کر رہے ہیں اور اسی پر ہماری توجہ مرکوز ہے۔


متعلقہ خبریں