پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات حتمی مراحل میں داخل

imf

پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف )کے بیل آوٹ پیکج کے لیے مذاکرات مزید دو روز تک جاری رہیں گے۔ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ حتمی مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔

تیس اپریل سے شروع ہونے والے مذاکرات کے دوران بیٹھک پر بیٹھک ہوئی۔ لیکن اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مجوزہ معاہدے کے مسودے سے وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کر دیا گیا۔

ذرائع کا کہناہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 30 اپریل سے جاری مذاکرات میں اب تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آسکی۔ حکومت بیل آؤٹ پیکج کے حصول کےلیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔مشیرخزانہ عبدالحفیظ شیخ کی صدارت میں معاشی ٹیم کا اجلاس کچھ دیر بعد ہوگا۔ جس میں عالمی مالیاتی ادارے کے پروگرام پر غور کیا جائے گا۔

وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہناہے کہ وزیراعظم کی ہدایت کی روشنی میں معاہدے کے مسودے پر نظر ثانی ہوگی۔ امید ہے کہ جلد اتفاق رائے پر پہنچ جائیں گے۔معاہدے کا فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ 

ذرائع کے مطابق وزیراعظم غریب طبقے کے لیے سبسڈی برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں۔

وزارت خزانہ کے حکام نے کہا ہے کہ مذاکرات میں جیسے ہی پیش رفت ہوئی میڈیا کو آگاہ کردینگے ۔ 

آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پیکج کو حتمی شکل دینے کے لیے مشیر خزانہ کی زیر صدارت اجلاس میں معاشی ٹیم آئی ایم ایف سے قرض کے لیے سر جوڑ کے بیٹھے گی۔اجلاس میں وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر، چئیرمین ایف بی آر شبر زیدی ،وزیر توانائی عمر ایوب، وزیر منصوبہ و بندی و ترقی خسرو بختیار،فردوس عاشق اعوان، افتخار درانی ،سیکرٹری وزارت خزانہ، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خزانہ بھی شریک ہونگے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف سے تین سالہ پروگرام کے تحت ساڑھے چھ ارب سے آٹھ ارب ڈالرز تک کا قرض حاصل کرے گا۔

ٹیکسز کی مد میں یہ رقم بجلی، گیس اور تنخواہ دار طبقے سے تین سال میں وصول کی جائے گی۔ تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس سلیب 12 لاکھ کی بجائے چار سے چھ لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر لایا جائے گا۔

ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 600 ارب سے زائد کے ٹیکسز لگائے جائیں گے۔ شرح سود کم سے کم بارہ فیصد تک ہونے کا امکان ہے۔

ترقیاتی بجٹ گزشتہ سال کی سطح پر منجمد کرنے کا پلان  بھی تیار کیا گیا ہے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کی جائے گی۔

معاشی تجزیہ کارسوال اٹھار ہے ہیں کہ کیا سخت شرائط حکومت کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہیں؟مجوزہ معاہدے کے حتمی ڈرافٹ میں ایسا کیا ہے جس پر وزیراعظم عمران خان مطمئن نہیں ہوپارہے؟

یہ بھی پڑھیے:پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات مزید طویل

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس ہدف، بجلی، گیس کی قیمتیں یا روپے کی قدر نے وزیراعظم کو پریشان کررکھا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدہ حکومت کی ضرورت ہے مگر شرائط نے حکمرانوں کو اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے۔

واضح رہے گزشتہ  سے پیوستہ روز خبر سامنے آئی تھی کہ پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان بیل آؤٹ پیکج پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے نکات سے متعلق وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق معاہدے میں روپے کی قدر میں فوری کمی نہ کرنے، شعبہ توانائی میں سبسڈیز ختم کرنے اور تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس ریلیف ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ذرائع نے کہا ہے کہ معاہدے میں ٹیکس سلیب 2018 کی شرح پر واپس جائیں گے جبکہ ڈسکاونٹ ریٹ میں فوری اضافہ نہ کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا ہے۔


متعلقہ خبریں