کاروباری طبقے میں عدم اعتماد بجٹ خسارے کا سبب ہے، شبر زیدی



اسلام آباد: چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) شبرزیدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجٹ خسارہ ہے اور یہ پاکستان کے کاروباری طبقے اور ملکی گورننس نظام کے درمیان عدم اعتماد کا نیتجہ ہے، اگر یہ کم نہیں ہوگا تو ملکی بجٹ خسارے میں کمی نہیں آسکتی۔
پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامرضیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کاریونیو اکٹھا نہیں ہوتا تو ملک کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور تمام مسائل اسی سے جنم لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ریئل اسٹیٹ میں قانونی طورپرٹیکس بچانے کی گنجائش ہے، غیرقانونی تو پکڑی جاسکتی ہے، اس سمیت دو تین شعبے ایسے ہیں جن میں کالا دھن قانونی طورپرسفید ہورہا ہے۔
چیئرمین ایف بی آرنے کہا کہ ٹیکس اکٹھا کرنے میں جو مسائل ہوتے ہیں یہ ٹیکس پالیسی اور ٹیکس انتظامیہ کا مجموعہ ہیں، پالیسی میں  جو غلطی ہوتی ہیں وہ وقت کے ساتھ انتظامیہ یا نظام کا حصہ بن جاتی ہیں۔
شبر زیدی نے کہا کہ پاکستان میں صحیح کاروبار کرنا مشکل ہے جبکہ غلط کاروبار کرنا آسان ہے۔ ہمارے ہاں پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید سختی کی جاتی ہے جبکہ ہماری ترجیح ان لوگوں سے وصولی ہوگی جوبالکل بھی ٹیکس نہیں دیتے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ بغیراطلاع بینک اکاونٹس فریز کرنے پرپابندی کو کاروباری طبقہ سراہا رہا ہے،غیرملکی کرنسی کی منتقلی پرپابندی عائدکریں گے اور پاکستانی کرنسی کو عزت دیں گے۔
شبرزیدی نے کہا کہ جب ٹیکس بچانے والے شعبوں کو آہستہ آہستہ کم کریں گے تو معیشت آگے بڑھے گی، پاکستان سے سالانہ ایک ارب ڈالر فارن کرنسی اکاونٹس سے بیرون ملک گیا ہے۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ معاشی حقائق اورملکی مسائل کے درمیان باہمی رابطے کا فقدان ہے، آئی ایم ایف، ملکی خراب صورتحال کو مہنگائی کا ذمہ دار قراردیا جاتا ہے لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ طلب اوررسد کے عمل کے درمیان کتنے بڑے پیمانے پر منافع کمایاجارہا ہے۔اس معاملے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اگرہمیں بطور قوم زندہ رہنا ہے تو ہمیں سماجی رویہ بدلنا ہوگا، پاکستان میں عام لوگ قانون پسند ہیں، ٹیکس اکٹھے کرنے والوں سے شکایت کرنے والے افراد خود بل نہیں مانگتے۔ زرعی ٹیکس نافذ ہے جسے صوبوں نے اکٹھا کرنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے ہمیں جائیدادیں ظاہرکرنے کا قانون لانا پڑے جوعالمی سطح پرتسلیم شدہ ہے، 2017 میں پاکستان نے بے نامی ایکٹ پاس کیا تھا جس کے تحت ایف بی آر کے پاس بے نامی جائیداد کو ضبط کرنے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام آدمی سے ٹیکس لیا جاتا ہے لیکن حکومت کو نہیں دیا جاتا۔ لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ معلومات ہمارے پاس ہیں، آپ اپنے معاملات خود درست کرلیں تاکہ ہمیں کارروائی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ایف بی آر بھی ملک کے دیگر اداروں کی طرح ایک ادارہ ہے، اس میں بھی وہ خامیاں اور خوبیاں موجود ہیں جو دیگر ملکی اداروں میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کوشش کریں گے صوبوں کے ساتھ مل کر ٹیکس اکٹھا کرنے کا ایک ہی ادارہ بنائیں۔ اٹھاروہویں ترمیم کا صوبائی محصولات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں