محکمہ تعلیم سندھ میں اربوں کی خردبرد کا انکشاف


کراچی: محکمہ تعلیم سندھ میں جعلی بھرتیوں کے بعد جعلی بلوں کے ذریعے خرد برد کا انکشاف ہوا ہے جس سے قومی خزانہ کو بھاری نقصان پہنچا۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 2016 -2017  کے دوران محکمہ تعلیم میں جعلی بلوں کے ذریعے چار ارب روپے خزانے سے نکلوائے گئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکرٹری ایجوکیشن لیٹریسی آفس میں جعلی بلوں کے ذریعے ساڑھے تین ارب روپے کی ہیرپھیرکی گئی جبکہ سندھ ریفارم اسپورٹ یونٹ پروگرام میں بھی ڈیڑھ کروڑ روپے کی خرد برد کی گئی۔ محکمہ تعلیم سے باربار پوچھنے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا۔

رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹربیورو آف کریکولم اینڈ ایکسٹینشن ونگ میں ڈیڑھ کروڑ کی خرد برد کی گئی جبکہ ٹنڈو محمد خان سکھر میں بھی جعلی بلوں کے ذریعے رقم نکالی گئی۔

واضح رہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ کے محکمہ تعلیم میں 70 سے زائد اساتذہ کی بھرتیاں غیر قانونی قرار دے دی تھیں، ان استاتذہ کو فزیکل ٹریننگ، ڈرائینگ اور دیگر شعبوں میں بھرتی کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ میں محکمہ تعلیم  کا ایوننگ اسکول بند کرنے کا فیصلہ

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بھی اس حوالے سے سماعت ہوئی تھی۔ جسٹس گلزار احمد نے بھرتیوں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اساتذہ کی بھرتیوں کا پورا عمل ہی غیر قانونی ہے۔

اساتذہ کے وکیل مجیب پیرزادہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ بھرتیوں کا یہ طریقہ کار تو پورے سندھ میں ہے، اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے تھے کہ جب وہ معاملات سامنے آئیں گے تو انہیں بھی قانون کے مطابق پرکھیں گے۔

مجیب پیر زادہ نے دلائل میں کہا تھا کہ اسلام میں پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری دینے کا حکم ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ غلام سرور خان نے عدالت کو بتایا تھا کہ وفاقی ٹربیونل ان اساتذہ کی بھرتیوں کو غیرقانونی قرار دے چکا ہے، اساتذہ کی بھرتیاں جعلی دستاویزات پر کی گئیں اور وزیراعلیٰ سندھ ان اساتذہ کی بھرتیوں سے متعلق نوٹیفیکیشن بھی واپس لے چکے ہیں۔


متعلقہ خبریں