لاہور: صنعتی آلودگی جان لیوا خطرناک امراض جنم دینے لگی


لاہور: فیکٹریوں وکارخانوں کے مالکان صنعتوں کا آبی فضلہ زیر زمین ڈال کر نہ صرف پانی کو آلودہ کررہے ہیں، انسانوں و جانوروں میں خطرناک امراض پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اس بات کے بھی امکانات کو تقویت دے رہے ہیں کہ اگر جاری سلسلہ ترک نہ ہوا تو لاہور میں 2040 تک زیرزمین قابل استعمال پانی ہی ختم ہوجائے گا۔

ہم نیوز کے مطابق یہ بات اس ’رپورٹ‘ میں کہی گئی ہے جو لاہور ہائی کورٹ بار کی تحفظ ماحولیات کمیٹی کے چیئرمین اشفاق احمد کھرل نے کارروائی کے لیے مختلف سرکاری اداروں کو درخواست کے ہمراہ بھجوائی ہے۔

سرکاری محکموں کو بھیجی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان کی غفلت و لاپرواہی کی وجہ سے زیر زمین پینے کا پانی آلودہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے قواعد و ضوابط کے مطابق زیرزمین ڈالنے یا نالیوں میں بہانے سے قبل صاف نہیں کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فیکٹری مالکان کیمیکل ملا پانی گہرے کنویں کھود کر زیر زمین بھی ڈال رہے ہیں اور نتیجتاً وہی پانی استعمال کرنے والے لوگ معدے، انتڑیوں، جگر اور کینسر سمیت دیگر خطرناک جان لیوا امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ بار کی تحفظ ماحولیات کمیٹی کے چیئرمین اشفاق احمد کھرل کی جانب سے بھیجی جانے والی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ صرف شیخوپورہ کی 900 فیکٹریوں کا صنعتی آبی فضلہ (ویسٹ واٹر) بغیر ٹریٹمنٹ کے نالوں میں اور زیر زمین ڈالا جارہا ہے۔

ہم نیوز کے مطابق بھیجی جانے والی درخواست صوبائی سیکرٹریز ماحولیات و ہائوسنگ اینڈ اربن ڈیولپمنٹ کو بھجوائی گئی ہیں۔ درخواستیں صاف پانی اتھارٹی پنجاب اور آب پاک اتھارٹی پنجاب کو بھی بھیجی گئی ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق رپورٹ میں درج ہے کہ اپنا صنعتی فضلہ زیرزمین یا کھلی نالیوں کے ذریعے بہانے والوں میں ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت مقامی فیکٹریاں و کارخانے بھی شامل ہیں جو سریا، صابن، پیپرز، گلاس اور پائپ وغیرہ تیار کرتے ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سرکاری متعلقہ محکمے ان فیکٹری مالکان کے خلاف کارروائیوں کو یقینی بنائیں جو گہرے کنوؤں کے ذریعے اور یا پھر غرقی بنا کرزیر زمین پانی کو آلودہ کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق لاہور ہائی کورٹ بار کی تحفظ ماحولیات کمیٹی کے چیئرمین اشفاق احمد کھرل نے اپنی درخواست میں یہ استدعا بھی کی ہے کہ بنا ٹریٹمنٹ کے آلودہ صنعتی پانی ندی نالوں میں ڈالنے والے کارخانوں و فیکٹریوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

اشفاق احمد کھرل کی جانب سے دی جانے والی درخواست میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو لاہور میں زیر زمین قابلِ استعمال پانی 2040 تک ختم ہو جائے گا۔

آلودگی کی معلوم تمام اقسام میں ’صنعتی آلودگی‘ واحد ہے جو مادے کی تینوں حالتوں یعنی ٹھوس، مائع اور گیس کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں، پیداواری عمل کے نتیجے میں نکلنے والا آبی و ٹھوس فضلہ اور مشینوں سے پیدا ہونے والا شور صنعتی آلودگی کی مختلف اقسام ہیں۔

صنعتی فضلات سے پانی آلودہ ہوتا ہے۔ صنعتی فضلات میں نامیاتی اور غیر نامیاتی مادے، نقصان دہ جرثومے، بدبو دار مواد اوردیگر بہت سی اشیا شامل ہوتی ہیں جبکہ اخراج میں مائع، نیم ٹھوس اور سیال مادے شامل ہیں۔

صنعتی ٹھوس فضلے کو ’ماحول دوست‘ انداز سے ٹھکانے لگانے کا سائنسی طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت انتہائی حفاظتی اقدامات کے ساتھ صنعتی فضلے کو تربیت یافتہ عملہ لینڈ فل سائٹ میں لے جاکر ڈمپ کرتا ہے جب کہ صنعتی آبی فضلے کو سیوریج کے پانی کی طر ح بہانے سے قبل ٹریٹمنٹ پلانٹ سے گزارنا لازمی ہوتا ہے۔

پاکستان میں اس ضمن میں قواعد و ضوابط موجود ہیں لیکن جس طرح دیگر قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ملک میں معمول ہے بالکل اسی طرح اس ضمن میں بھی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے دیگر سرکاری و حکومتی اداروں کی طرح متعلقہ محکمے غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اوراس طرح اپنی اور دیگر ہم وطنوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔

ملک میں مروج قوانین کے تحت کارخانوں و فیکٹریوں کی چمنی سے نکلنے والے دھویں کو مضر صحت اثرات سے پاک رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ فیکٹریاں و کارخانے اپنا پیداواری عمل ماحول دوست بنائیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ گیسوں کا اخراج کم سے کم ہو۔

قواعد و ضوابط کے تحت لازمی قرار دیا گیا ہے کہ مشینوں سے نکلنے والے شور کو بھی کم سے کم رکھنے کے لیے مشینوں کو درست حالت میں رکھا جائے اور کارخانوں کو آبادیوں سے دور رکھا جائے۔


متعلقہ خبریں