علیم خان کو 100 روز بعد رہائی کا پروانہ مل گیا


لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق صوبائی وزیر علیم خان  کو  100 روز بعد رہائی کا پروانہ مل گیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے ان کی درخواست ضمانت  منظور کر لی ہے۔ علیم خان کو 10 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا گیا ہے ۔

لاہور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کے رہنما عبدالعلیم خان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔ جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

معزز جج نے نیب وکیل سے استفسار پر نیب وکیل نے بتایا کہ ملزم جوڈیشل ریمانڈ پرجیل میں قید ہے۔ نیب وکیل نے ملزم کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے الزامات پر گواہوں کے بیانات عدالت میں پڑھ کر سنائے۔

کمرہ عدالت کے باہر تحریک انصاف کے کارکنوں کے شورمچانے پرعدالت نے اظہاربرہمی کیا اورسکیورٹی کوحکم دیا کہ باہر افراد کھڑے افراد کو خاموش کرایا جائے۔ عبدالعلیم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لوگ ہماری حمایت کیلئے نہیں آئے۔

سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نیب وکیل نے عدالت کو بتایا کہ علیم خان نے زمین کی قیمت کم دکھائی۔

عدالت نے نیب وکیل سے استفسار کیا کہ یہ سب تو علیم خان نے گوشوارے میں لکھ دیا ہے آپ یہ بتائیں ان کے سورسزکیا تھے؟

نیب وکیل نے جواب دیا کہ تخمینہ کار کا بیان موجود ہے،

عدالت نے نیب وکیل سے کہا کہ کھل کر بتائیں کہ علیم خان کو بیرون ملک سے کتنے پیسے آئے، فلاں اکائونٹس سے پیسے آئے، اسطرح کچھ بتائیں؟

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ علیم خان کے اکاؤنٹ میں بیرون ملک سے 89.4 ملین کی ترسیلات آئیں اور اسی دن یہ رقم عبدالعلیم کے اکاؤنٹس میں منتقل ہو گئیں۔ انکے  والد اور والدہ کا کوئی سورس پاکستان میں موجود نہیں جبکہ علیم خان کی والدہ اوروالد سرکاری ملازم تھے۔

تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ عبدالعلیم خان 90 کروڑ کے اثاثوں کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ علیم خان بیرون ملک 50 کروڑ روپے کی جائیداد خریدی۔

تفتیشی آفیسر نے یہ بھی بتایا کہ عبدالعلیم خان نے دعوی کیا کہ ان کا ڈیڑھ کروڑ سے زائد رقم کا پرائز بانڈ نکلا، جس سے ایک گھر خریدا،اور عبدالعلیم خان نے ویژن ڈویلپرز میں بھی سرمایہ کاری کی۔

تفتیشی افسر نےمزید بتایا کہ علیم خان کے اکائونٹنٹ نے بھی بیان میں کہا کہ پیسے ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھیجے گئے۔

علیم خان کے وکیل نے بتایا کہ عبدالعلیم خان نے 150 افراد سے اراضی خریدی، نیب کا تمام ریکارڈ، ایف بی آر کا ریکارڈ  جو ہم نے ہی جمع کروایا تھا

نیب نےعدالت میں علیم خان کے اخراجات اور ذرائع آمدن کی دستاویزات پیش کیں۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا وہ رقوم غیر قانونی تھی ؟ یہ کون سے ذرائع ہیں ؟ اس پر کوئی تاریخ ہی نہیں لکھی ؟

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی حتمی رپورٹ بنانی ہے اور چیئرمین نیب کو بھیجی جائے گی،عدالت نے عبدالعلیم کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ اس پر جواب دینا چاہیں گے؟
عبدالعلیم خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں اس کا جواب نہیں دوں گا کیونکہ اس پر نیب کے افسر کے کوئی دستخط موجود نہیں ہیں اورنیب کی علیم خان کیخلاف پیش کی گئی رپورٹ غیر مصدقہ ہے۔

علیم خان کے وکیل نے کہا کہ جس زمین کی بات نیب کررہا ہے وہ 4 سال کے عرصے میں خریدی گئی۔ اگر نیب نے یہ ثابت کرنا ہے کہ زمین کی قیمت زیادہ تھی تو اس کے لئے ثبوت پیش کرنا ہوں گے۔  صرف گواہوں کے بیانات پر تو کیس نہیں بنتا،18 سال پرانا کیس ہے اور ابھی تک ریفرنس نہیں فائل ہوتا اور اس دوران عبدالعلیم خان کبھی مفرور نہیں رہے۔

عدالت نے نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کی تفتیش کی کیا پوزیشن ہے؟

عدالت کو بتایا گیا کہ تفتیش جاری ہے، ہم وقت نہیں بتا سکتے کہ کب تفتیش مکمل ہو گی۔

عدالت نے نیب کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ کچھ دیر کیلئے محفوظ کیا اور بعد ازاں فیصلہ سناتے ہوئے عبدالعلیم خان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں دس دس لاکھ روپے کے دوضمانتی مچلکے احتساب عدالت میں داخل کرانے کا حکم دیا۔

عبدالعلیم خان کو نیب نے چھ فروری کو نیب لاہور بیورومیں دوران تفتیش گرفتارکیا اور چار ہفتے حراست میں رکھ  رکھا۔  پانچ مارچ کواحتساب عدالت کے سابق جج سید نجم الحسن بخاری کے حکم پرعبدالعلیم خان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

اسیری کے ان دنوں میں عبدالعلیم خان جیل میں کم جیل سے باہرزیادہ رہے۔ علیم خان پروڈکشن آرڈر پر جیل سے نکلتے اور دن بھر پنجاب اسمبلی میں سیاسی مصروفیات اور اہلخانہ سے ملاقات کے بعد رات گئے سونے کیلئے واپس جیل چلے جاتے۔

یہ بھی پڑھیے:پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 27 مئی تک توسیع


متعلقہ خبریں