فن کے لیے زندگی گزارنے والے مصور جمیل نقش نے دنیا چھوڑ دی

فن کے لیے زندگی گزارنے والے مصور جمیل نقش نے دنیا چھوڑ دی

لندن : فنون لطیفہ کی ممتاز نقاد مارجری حسین نے ایک مرتبہ لکھا تھا کہ ’’جمیل نقش نے فن کے لیے زندگی گزاری اور اپنی مسرت کے لیے پینٹنگز بنائیں‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’وہ ٹیکسچر، روشنی اور اسپیس کے ماسٹر تھے‘‘۔ جمیل نقش کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’’یہی ان کی منفرد پینٹنگز کا موضوعاتی پس منظر بھی تھا‘‘۔

ٹیکسچر، روشنی واسپیس کے ماسٹراوردنیا میں مصوری کے حوالے سے پاکستان کو عالمی سطح پر شہرت دلانے والے معروف مصور جمیل نقش لندن میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ ان کا انتقال برطانیہ کے سینٹ میری اسپتال میں ہوا۔ وہ فانی زندگی کی 80 بہاریں دیکھ چکے تھے۔

نامور مصور جمیل نقش کے خاندانی اور قریبی ذرائع کے مطابق ان کی نماز جنازہ اور تدفین لندن ہی میں کی جائے گی۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے نامور مصور کو نمونیہ کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد سینٹ میری اسپتال میں علاج کی غرض سے داخل کرایا گیا تھا۔

اسپتال میں ایک ہفتہ زیرعلاج رہنے کے بعد وہ زندگی کی بازی ہارے اور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

ناقدین کے مطابق ان کا شمارصادقین اور بشیر مرزا جیسے اصحاب میں ہوتا تھا جو بلاشبہ پاکستان کا فنون لطیفہ کے حوالے سے ’سنہری دور‘ سے تعبیر کیے جاتے تھے۔

جمیل نقش گزشتہ دس سال سے لندن میں مقیم تھے۔ وہ 1954 میں نیشنل کونسل آف آرٹس لاہور کا حصہ بنے اور پھر اپنے منفرد انداز کے باعث شہرت سمیٹتے چلے گئے۔

ان کے کام میں ایک خاص قسم کی ندرت تھی جو انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی۔ وہ اپنی پینٹنگز میں رنگوں کے امتزاج سے منفرد احساس اجاگر کرنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔

یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے فن کے ذریعے صادقین اور بشیر مرزا کی طرح قیام پاکستان کے بعد نوزائیدہ مملکت کی سمت متعین کرنے میں اپنا حصہ ڈالا لیکن اس کے باوجود ان کی پینٹنگز میں دور جدید کی عکاسیت نہایت بھرپور تھیں۔

پاکستان کے نامورمصور جمیل نقش کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کراچی میں ایک میوزیم بھی قائم کیا گیا تھا جس کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی ممتاز سیاستدان اور معروف قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن تھے۔

2017 میں قائم کیے جانے والے میوزیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ جمیل نقش اور ان کا آرٹ ہماری قوم کے لیے باعث فخر ہے۔

فنون لطیفہ کے دلدادہ اور کئی کتب کے مصنف بیرسٹر اعتزازاحسن نے جمیل نقش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی خدمات نے دنیا کے لیے ہماری روایت کو ایک ایسے انداز میں دیکھنے کے قابل بنایا ہے جس کے لیے الفاظ کی محتاجی نہیں ہے۔

جمیل نقش نے اپنی پینٹنگز کے ذریعے جہاں اسلامی تاریخ کو اجاگر کیا تھا، ہندوؤں کے دیوی و دیوتاؤں کے نقوش کینوس پہ ابھارے تھے تو وہیں انہوں نے کشمیری و پنجابی محنت کشوں کی تصویر کشی کا بھی حق ادا کردیا تھا۔

ان کی مصوری میں کبوتراورخواتین سمیت فطری مناظر کے ’استعارے‘ کثرت کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ جمیل نقش کے ابتدائی سفر میں روایتی عناصر نمایاں تھے جن پر دور مغلیہ کی چھاپ دکھائی تھی۔

فن مصوری میں ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں متعدد ایوارڈوں سے نوازا گیا جن میں ستارہ امتیاز، صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور شاکر علی ایوارڈ شامل ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق جمیل نقش 1939 میں بھارت کے شہر کیرالہ میں پیدا ہوئے تھے۔

کبوتر اور عورت کو اپنی مصوری کا استعارہ بنانے والے اس عظیم مصور کے فن پاروں کی نمائش پاکستان، بھارت، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک میں ہوئی جہاں فنون لطیفہ کے دلدادہ افراد نے ان کے کام کو بے حد سراہا۔

وہ 1970 سے 1973  تک ’پاکستان پینٹرز گلڈ‘ کے صدر رہے۔ ان کی پینٹنگ موہٹہ پیلس میوزیم میں بھی رکھی گئی جو ایک ’زندہ‘ آرٹسٹ کے لیے منفرد اعزاز تھا۔


متعلقہ خبریں