پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین بڑا مسئلہ ہے،ڈاکٹر ظفرمرزا


وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین بڑا مسئلہ ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے نیشنل میڈیسن پالیسی بنائیں گے ۔ ڈاکٹر ظفر مرزا نےیہ انکشاف بھی کیاہےکہ بعض ادویات کی قیمتیں اس لیے بڑھائی گئی تھیں تا کہ کہیں ادویات مارکیٹ سے غائب نہ ہو جائیں ۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا مرزا نے کہا کہ حکومت کو بہت سی مشکلات ورثے میں ملی ہیں ۔ پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا بڑا مسئلہ ہے ۔ حکومت اس مسئلے پر قابو پانے کے لیےہرممکن کوشش کررہی ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) میں بھی اصلاحات لائی جائیں گی۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا  کہ بعض ادویات کی قیمتیں اس لیے بڑھائی گئی تھیں تا کہ کہیں ادویات مارکیٹ سے غائب نہ ہو جائیں کیوں کہ چند ادویات کی قیمتوں میں دو ہزار دو کے بعد سے اب تک اضافہ نہیں کیا گیا تھا ۔

معاون خصوصی برائے صحت  ڈاکٹر مرزا کا کا کہنا ہے کہ کہ مہنگی ادویات کی مد میں عوام سے وصول کی گئی رقم  پاکستان بیت المال کو منتقل کی جائےگی۔

واضح رہے اس سے قبل 3مئی کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے انکشاف کیا تھا کہ حال ہی میں 464 ادویات میں بعض کی قیمتیں 5 سو سے 7 سو فیصد بڑھیں۔

ذرائع ابلاغ  سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے  بتایا تھا کہ 31 دسمبر2018 کو ایس آراو کے ذریعے  839 دواؤں کی قیمتیں طے کر لیں گئیں مگر 10 جنوری کو ایک اور ایس آراو جاری کیا گیا جس میں قیمتوں میں مزید 9 فیصد اضافہ کیا گیا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ 9 سے 75 فیصد ادویات کی قیمتیں واپس لانے  کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس اقدام سے عوام کا سالانہ 7 ارب روپے کا فائدہ ہو گا۔

ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا دواؤں کی قیمتوں میں کمی عوام کو حکومت پاکستان کی طرف سے رمضان کا تحفہ ہے۔ 20 مئی تک دواؤں کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ  واپس لینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:ادویات کی قیمتوں میں 500 سے 700 فیصد اضافے کا انکشاف

ڈاکٹر ظفر مرزا نے بتایا کہ گزشتہ دس دنوں میں اس حوالے سے بہت کام ہوا ہے، اس دوران کمپنیوں سے بھی بات کر لی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت دواؤں کی قیمتوں میں اضافے کے قواعد و ضوابط بنا رہی ہے، قیمتیں بڑھنے پر عوام نے جو اضافی رقم خرچ کی ہے اسے قانونی طریقے سے عوام کو واپس دلائیں گے۔ بیت المال میں اس رقم کا ریکارڈ ہو گا اور مستحق لوگ اس سے مستفید ہونگے۔


متعلقہ خبریں