رپورٹ: پشاور کے غیر مسلم روزہ دار ۔۔۔ اور سکھوں کی افطاری

رپورٹ: پشاور کے غیر مسلم روزہ دار ۔۔۔ اور سکھوں کی افطاری


پشاور: بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری اور بھائی چارگی کی بہترین مثال ہرسال رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں اس وقت دکھائی دیتی ہے جب ’ پھولوں کے شہر‘ میں واقع لیڈی ریڈنگ اسپتال میں داخل مریضوں کے تیمارداروں، ضرورت مندوں اور راہ گیروں کے لیے شہر کی سکھ برادری افطاری کا اہتمام کرتی ہے۔

جب سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور بزرگ مسلمان روزہ داروں کو افطار کرانے کے لیے دوڑ دوڑ کر مشروبات تیار کر رہے ہوتے ہیں، کھجوروں و پھلوں سے پلیٹوں کو سجا رہے ہوتے ہیں اورآنے والوں کے لیے دیدہ و دل  فرش راہ کیے ہوتے ہیں تو دراصل وہ انسانیت کا ’عظیم پرچم‘ بلند کررہے ہوتے ہیں۔

سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد ہرسال اسی طرح نفرتوں، کدورتوں اور جھوٹی اناؤں کی بلند و بالا دیواروں کی مسماری کا اعلان کرتے ہیں اورمسلمان روزہ دار بھی انہیں ’جھپی‘ ڈال کر’دل سے دل کو راہ ہوتی ہے‘ کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔

سکھوں کی جانب سے دی جانے والی افظاری میں پہلے صرف پشاور شہر کے افراد شریک ہوتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب دیگر شہروں کے باسیوں کو اس افطاری کا علم ہوا تو وہ بھی کبھی دیکھنے اور کبھی شرکت کرنے کی نیت سے پھولوں کے شہر کا رخ کرنے لگے ہیں۔ نتیجتاً وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افطاری کا اجتماع پہلے کی نسبت بڑا ہونے لگا ہے۔

یہ کہنا قطعی غلط نہیں ہے کہ بیرون شہر سے آنے والے جب مذہبی رواداری اور بھائی چارگی کی اس ’انوکھی‘ مثال کو دیکھتے ہیں تو ان کے لبوں سے بھی دعائیں نکلنے لگتی ہیں۔

بھارت کی تہاڑ جیل: ہندو قیدیوں نے مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھا

پشاور جہاں سکھوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد عرصے سے قیام پذیر ہے وہ ماہ مقدس میں اپنے مسلمان روزہ دار پڑوسیوں و ساتھیوں کا اس طرح احترام کرتی ہے کہ کچھ لوگ سارا دن اسی طرح کھانے پینے سے اجتناب برتتے ہیں جس طرح مسلمان روزہ دار کرتے ہیں۔

برسوں سے ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کے دکھ درد ’سانجھے‘ جاننے کی وجہ سے متعدد ایسے بھی غیر مسلم ہیں جو اگر سارا دن کھانے پینے سے اجتناب نہ بھی برت سکیں تو کم از کم اعلانیہ لذت کام و دہن سے احتیاط ضرور برتتے ہیں۔

۔۔۔اگر رمضان کا مطلب صرف بھوک پیاس برداشت کرنا ہے جس طرح ’کچھ مسلمان‘ سمجھتے ہیں تو پشاور کے کرسچین اگسٹن جیکب بھی ’روزہ‘ رکھتے ہیں کیونکہ وہ سارا دن کھانے پینے سے اجتناب برتتے ہیں۔

اگسٹن جیکب مذہبی اعتبار سے عیسائی ہیں اور ایک نجی بینک میں ملازمت کرتے ہیں۔ مذہبی اعتبار سے ان پر کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ دن کے اوقات میں کھانا پینا لازمی ترک کریں مگر وہ مسلمانوں کی پیروی میں اپنا سارا دن روزہ دار کی طرح کھائے پیے بغیر گزارتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’ اچھا نہیں لگتا ہے کہ اپنے روزہ دار ساتھیوں کے سامنے کھاؤں پیوں‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ اخلاقی اعتبار سے معیوب محسوس ہوتا ہے اور پھر رمضان المبارک کا احترام بھی دامن گیر ہوتا ہے تو میں سارا دن ایک مسلمان روزہ دار کی طرح گزار دیتا ہوں‘‘۔

جیکب کا کہنا ہے کہ ’’وہ ایسا کسی دباؤ کی وجہ سے نہیں کرتے ہیں بلکہ انہیں ایسا کرنے پر ان کا ’آپ‘ مجبور کرتا ہے اور انہیں ایسا کرتے ہوئے کبھی برا محسوس نہیں ہوا ہے۔

وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگر وہ دن کے اوقات میں کھانا پینا چاہیں تو ان کے ساتھیوں کے لیے اچھنبے کی بات نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ حیران ہوں گے مگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔

اگسٹن جیکب کی باتیں سنیں اور ظاہری عمل کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اگر حقیقتاً روزے کے معنی صرف بھوکا و پیاسا رہنا ہے تو عیسائی برادری سے تعلق رکھنے واے جیکب بھی ایک ماہ ’روزے‘ سے رہتے ہیں۔

جیکب کا کہنا ہے کہ دفتر میں ان کے جو دیگر عیسائی ساتھی ہیں وہ بھی اسی طرح کھائے پیے بغیر اپنا دن گزار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ میرے ساتھی اس لیے بھی کھائے پیے بنا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ دفتر والوں کا روزہ ہوتا ہے اور چائے والے کو ایسے میں تکلیف دینا مناسب محسوس نہیں ہوتا ہے۔

پشاورمیں آباد عیسائیوں، سکھوں اور ہندوؤں کی غالب اکثریت موبائل فونز، مصالحہ جات اور پنساری کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں ان کے کاروباری علاقوں میں بھی روزے کا سماں دور سے محسوس ہوتا ہے۔

اس ضمن میں نرمل سنگھ کا دعویٰ ہے کہ وہ باقاعدہ روزہ رکھتے ہیں۔ ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ مسلمان روزہ دار دکانداروں کے سامنے کھنا پینا اچھا نہیں لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بھی بہرحال ایک حقیقت ہے کہ اگر کسی کا موڈ بن جائے اور وہ کچھ کھانا چاہے تو بھی ممکن اس لیے نہیں ہوگا کہ سارے ہوٹلز و تندور بند ہوتے ہیں۔

نرمل سنگھ کی دکان کے ایک کونے میں پانی سے بھرا ہوا واٹر کولر ضرور موجود تھا جو شاید نظریں بچا کر اپنا حلق تر کرنے کے خواہش مندوں کی ضرورت پوری کرتا ہوگا۔

رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے جس طرح مذہبی رواداری اور بھائی چارگی کو فروغ دینے کی راہ نکالی ہے وہ بلاشبہ قابل تعریف ہے۔

اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کہتے ہیں کہ انہیں اپنے مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرنا اور ان کے ساتھ مذہبی رسومات میں شریک ہونا اچھا بلکہ بہت اچھا لگتا ہے اور وہ واقعتاً خوشی محسوس کرتے ہیں۔

بیشک! دنیا کا کوئی مذہب انسانوں سے نفرت کرنا نہیں سکھاتا ہے اور نہ ہی دلوں میں نفرتیں و کدورتیں پالنے کا درس دیتا ہے بلکہ ہرمذہب احترام انسانیت سکھاتا اورسمجھاتا ہے کہ اسی میں انسان کی بقا مضمر ہے۔


متعلقہ خبریں