پے پال کا پاکستان آنے سےانکار، فری لانسرز پریشان

فائل فوٹو


اسلام آباد: آن لائن ادائیگیوں کی معروف کمپنی پے پال کی طرف سے پاکستان میں کام کرنے سے انکار پر مقامی فری لانسرز مایوس اور پریشان نظر آرہے ہیں۔

پے پال اس وقت دنیا کی 190 مارکیٹس میں آن لائن پیسے منتقل کرنے کی خدمات انجام دے رہی ہے لیکن اس نے دنیا کی چوتھی بڑی مارکیٹ(پاکستان) میں کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔

پاکستان میں تقریبا دو لاکھ افراد کو رقوم کی منتقلی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مشکلات کومد نظر رکھتے ہوئے فری لانسنگ اور ای کامرس سے وابستہ افراد طویل مدت سے اپنے ملک میں پے پال کا مطالبہ کررہے تھے۔

سابق وزیرخزانہ اسد عمر نے بھی کمپنی کو مدد فراہم کرنے کی یقینی دہانی کرائی تھی لیکن اب تمام کاوشیں ناکام ہوگئی ہیں۔

سیکرٹری برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی معروف افضل نے سینٹ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ امریکی کمپنی پاکستان میں کام کرنا نہیں چاہتی۔ پے پال حکام کا کہنا ہے کہ کمپنی کو پاکستان میں مشکلات درپیش ہیں۔

پاکستان سوفٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل شہریار حیدری نے ڈان نیوز کو بتایا کہ پے پال کی پاکستان نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا پوائنٹ آف سیل سسٹم نہیں لیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ  الاقوامی کمپنیاں کسی مارکیٹ میں شامل ہونے سے قبل رقوم کی منتقلی کی تعداد اور بینک اکاوٴنٹس بھی دیکھتی ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس وقت ملک میں کریڈٹ کارڈز کی مجموعی تعداد 36 لاکھ ہے جبکہ کمرشل بینکس سے جاری کردہ ڈیبٹ کارڈز کا حصہ 52 فیصد یعنی 2 کروڑ 10 لاکھ ہے۔

شہریار حیدری کا کہنا تھا کہ چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کسی رشتہ دار کی مدد سے بیرونِ ملک اکاوٴنٹ کھلواتے ہیں اور اس میں ادائیگیاں وصول کرتے ہیں۔ اس طرح پاکستانیوں کا سرمایہ کافی عرصہ تک بیرون ملک بینکوں میں پڑا رہتا ہے۔


متعلقہ خبریں