سندھ حکومت بمقابلہ پولیس: اختیارات کی جنگ کون جیتے گا؟

سندھ پولیس کے 465 افسران اور اہلکاروں میں کورونا کی تشخیص

فائل فوٹو


کراچی: سابق انسپکٹر جنرل(آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ صوبائی حکومت کے لیے اس وقت لوہے کا چنا ثابت ہوئے جب حکومت سندھ نےانہیں ہٹانے کی کوشش کی اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔

صوبائی حکومت اور پولیس کی کشمکش کے نتیجے میں عدالتی حکم پر افسران کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا اختیار پولیس کو مل گیا۔ حکومت سندھ بھی ڈٹ گئی اور اس نے پولیس کے نظام میں اصلاحات کے لیے پرویز مشرف کے دور میں لائے گئے پولیس آرڈر 2002 کو بطور فریم ورک سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پولیس اسٹیبلشمنٹ نے تین ماہ تک پولیس آرڈر 2002 میں ترامیم پر تبادلہ خیال کیا اور پھر یہ بل صوبائی اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

سندھ اسمبلی نے 19 رکنی کمیٹی تشکیل دی اورصوبائی وزیر برائے خوراک اسماعیل راہو کو کنوینیربنایا۔ مذکورہ کمیٹی میں شامل 11 اراکین کا تعلق پیپلزپارٹی اور 8 کا تعلق اپوزیشن سے تھا۔

سلیکٹ کمیٹی کے سات اجلاس ہوئے جن میں آئی جی سندھ پولیس، وکلاء اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ صوبے میں حکمراں جماعت تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(جی ڈی اے)  کے اراکین کو مطمئن نہ کر سکی۔

اپوزیشن کے دو اراکین جن کا تعلق ایم ایم اے اور تحریک لبیک سے تھا وہ حکومتی موقف کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔نو جنوری سے جاری سندھ اسمبلی کے طویل ترین سیشن کے آخری دن18 مئی کو یہ بل ایون میں پیش کیا گیا اور اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کے باوجود اکثریت کے ساتھ منظور بھی کر لیا گیا۔

سلیکٹ کمیٹی کا دعوی ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ90 فیصد سفارشات کو پولیس آرڈر 2019 کا حصہ بنا دیا گیا ہے لیکن اپوزیشن پہلے ہی پولیس آرڈر 2019 کو رد کرتے ہوئے عدالت میں جانے کا اعلان کر چکی ہے۔

پولیس آرڈر 2019 کیا ہے؟

پولیس آرڈر2019 کے تحت وفاقی حکومت کے پیش کردہ تین ناموں میں سے کسی ایک کو سندھ حکومت آئی جی مقرر کرے گی جس کی مدت تین سال ہوگی۔

صوبائی حکومت آئی جی کی خدمات وفاق کو واپس بھی کر سکے گی۔ صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن تحریری اسباب کے ذریعے آئی جی کو ہٹانے کی سفارش کر سکے گا۔

ڈی ایس پی سے لے کر ایڈیشنل آئی جی کے تبادلوں اور تقرریوں کا اختیار سندھ حکومت کو حاصل ہوگا۔ جونئیر رینک کے افسروں کے تبادلے اور تقرریاں آئی جی سندھ حکومت کی مشاورت سے کریں گے۔

کسی رینج کے ڈی آئی جی اور اضلاع کے ایس ایس پی کی تقرری کے لئے آئی جی وزیر اعلی کو 3 نام دیں گے۔ وزیر اعلی ان میں سے ایک نام کی منظوری دیں گے۔

ڈائریکٹر آف پولیس ٹریننگ سینٹر کا تقرر آئی جی سندھ کریں گے۔ پولیس ٹریننگ کے اداروں کے سربراہ کی تقرری اور پولیس رینجز اور ڈویژنز کی تشکیل بھی آئی جی سندھ وزیراعلیٰ کی مشاورت سے کریں گے۔

پولیس آرڈر 2019 کے مطابق محکمے میں آپریشن اور تفتیش کے الگ الگ شعبے ہوں گے۔ صوبائی تفتیشی شعبے کا سربراہ ڈی آئی جی کے عہدے کا افسر ہوگا اورضلعی تفتیش کے شعبے کا سربراہ ایس ایس پی کے عہدے کا افسر ہوگا۔

صوبائی اور ضلعی سطح پر پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلین کمیشن قائم کیے جائیں گے۔ صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن 12 اراکین پر مشتمل ہوگا جس میں چارحکومتی اور دو اپوزیشن اراکان بھی شامل ہوں گے جن کا تقرر اسپیکر سندھ اسمبلی کریں گے۔

ضلعی پبلک سیفٹی کمیشن کے ایک تہائی ارکان کی نامزدگی حکومت مذکورہ ضلع کے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی میں سے کرے گی۔ ایک تہائی ارکان کی نامزدگی حکومت سندھ سلیکشن پینل کے تجویز کردہ ناموں سے کرے گی۔

اپوزیشن پولیس آرڈر 2019 کو کس طرح چاہتی ہے؟

سندھ پولیس کے لیے نئی قانون سازی میں اپوزیشن کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ پولیس کو ایک آزاد غیر سیاسی، ذمہ دار، بااختیار، پیشہ وارانہ قابل پولیس فورس بنایا جائے۔

 اپوزیشن کا کہنا ہے کہ سندھ گورنمنٹ کے قواعد و ضوابط کے تحت حکومت پالیسی کی ذمہ دار ہے لیکن پولیس کا انتظامی سربراہ آئی جی سندھ ہیں۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلین کمیشن کیلیے سلیکشن کمیٹی کو مکمل اختیارات ملنے چاہیں۔ سلیکشن کمیٹی میں لیڈر آف ہاؤس، لیڈر آف اپوزیشن اور سندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججز بھی شامل ہوں۔

انتخابی کمیٹی کی طرف سے منتخب ہونے والے ارکان کے مندرجہ ذیل معیارات ہونے چاہیں

صوبائی پبلک سیفٹی اور پولیس شکایات کمیشن 12 ارکین پر مشتمل ہوناچائیے جس میں اپوزیشن لیڈر کی طرف سے جس میں 2 مرد ایک خاتون شامل ہونے چاہئیں۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں سی پی ایل سی کا سربراہ، میئر کراچی، ایک معروف صنعت کار،  ڈی آئی جی رینک سے بڑے ریٹائرڈ پولیس آفیسر، کرمنل وکیل یا ریٹائرڈ جج اور سماجی کارکن شامل ہونے چاہیئں۔

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ پبلک سیفٹی اور پولیس شکایات کمیشن کے 9 اراکین کے انتخاب کے لئے تین رکنی پینل تشکیل دیا جائے۔ پینل میں سیشن جج ڈسٹرکٹ چیئرمین/میئر اورڈپٹی کمشنر شامل ہوں گے۔
آئی جی سندھ انتخابی پینل کی طرف سے تجویز کردہ 3 ناموں سے 3 سال کے لئے مقرر کیا جائے۔ اپوزیشن چاہتی ہے کہ آئی جی کے خلاف کوئی بھی کارروائی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر ہونی چاہیے۔

آئی جی سندھ کے خلاف انکوائری صوبائی پبلک سیفٹی اور پولیس شکایات کمیشن کی طرف سےکی جائے گی۔ ایڈیشنل آئی جی اور ڈی آئی جی کے لیے آئی جی سندھ تین نام دیں گے اور یہ تقرری دو سال کیلیے ہوگی۔ ایس ایس پی کی تقرری دوسال کیلیے ہوگی اور یہ حق آئی جی کے پاس ہوگا۔

ایس ایچ اوز کو ایک سال کے لئے تقرر کیا جائے تین سال تک دوبارہ اسی جگہ نہ رکھا جائے۔ تمام اے ایس آئی اور  ایس ایچ اوز کی سلیکشن سندھ کے ڈومیسائل ہولڈر کی مکمل فٹنس کے ساتھ این ٹی ایس کے ذریعے کی جائے۔

پولیس سے متعلق تمام تحقیقات محکمے کی سطح پر ہونے چاہیں اور تمام پولیس اسٹیشنوں میں خواتین سیکشن ہونا بھی ضروری ہے۔


متعلقہ خبریں