پولیس ایکٹ 2019 : آئی جی پولیس اور سندھ حکومت آمنے سامنے

پولیس ایکٹ 2019 : آئی جی پولیس اور حکومت سندھ آمنے سامنے

کراچی: سندھ اسمبلی سےمنظور ہونے والے پولیس ایکٹ 2019 پر آئی جی سندھ پولیس اور حکومت سندھ آمنے سامنے آگئے ہیں۔

آئی جی سندھ پولیس کلیم امام کی جانب سے سیکٹری داخلہ کو ایک اور خط لکھ دیا گیاہے ۔ سیکرٹری داخلہ  کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ  پولیس ایکٹ  2019میں سپریم کورٹ اورہائیکورٹ کےفیصلےکو نظرانداز کیاگیا ہے۔

پولیس ایکٹ کاآرٹیکل 9 اور10 اعلیٰ عدلیہ کےفیصلوں سےمطابقت نہیں رکھتا جبکہ آرٹیکل 13،15،17بھی عدالتی فیصلوں سےہم آہنگ نہیں ہیں۔

آئی جی سندھ کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ صوبائی وزیرداخلہ کو تحقیقات منتقل کرنے کااختیاردیناکیس کی شفافیت اور غیرجانبداری پراثراندازہونے کے مترادف ہوگا اور یہ اقدام سیاست کےنئےدر بھی کھولےگا۔

دوسری جانب حکومت سندھ نے آئی جی سندھ کے سیکریٹری داخلہ کو لکھے گئے خط کا نوٹس لیتے ہوئے سخت ردعمل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق حکومت سندھ آئی جی سندھ سے تحریری جواب طلب کرے گی،  حکومت سندھ کا موقف ہے کہ سرکاری ملازم منتخب ایوان کے پاس کردہ بل پر کس طرح اعتراض کرسکتا ہے؟

سندھ حکومت اورصوبائی پولیس چیف کے درمیان محکمے پر اختیارات کے حوالے سے رنجش کی داستان پرانی ہے۔

اٹھارہ مئی کو پولیس آرڈر دوہزار انیس کی منظوری سے سندھ حکومت نے محکمے پر اپنی گرفت مضبوط بنالی۔ اسی دوران آئی جی سندھ بھی پولیس آرڈر دوہزار دو کی بحالی کے لئے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو دوسرا تفصیلی خط ارسال کرچکے تھے۔

18مئی کو حکومت سندھ نےپولیس ایکٹ 2002 کی بحالی کے لئے صوبائی اسمبلی میں پولیس آرڈر 2019 پیش کیا جسے فوری طور پر منظور کرلیا گیا۔

اگر پولیس آڈر2019 کے چیدہ چیدہ نکات کی بات کی جائے تو اس آرڈر کے تحت وفاقی حکومت کو پیش کردہ تین ناموں میں سے کسی ایک کو سندھ حکومت آئی جی مقرر کرے گی۔

یہ تقرری تین سال کے لئے ہوگی۔ سندھ حکومت آئی جی کی خدمات وفاق کو واپس بھی کر سکے گی ،صوبائی پبلک سیفٹی کمیشن تحریری اسباب کے ذریعے آئی جی کو ہٹانے کی سفارش کر سکے گا تقرریوں اور تبادلے کی بات کی جائے توڈی ایس پی سے لیکر ایڈیشنل آئی جی کے تبادلوں وتقرر کا اختیار سندھ حکومت کو حاصل ہوگیا ۔

جونئیر رینک کے افسروں کے تبادلے اور تقرریاں آئی جی ،سندھ حکومت کی مشاورت سے کریں گے ۔کسی رینج کے ڈی آئی جی اور اضلاع کے ایس ایس پی کی تقرری کے لئے آئی جی وزیر اعلی سندھ کو 3 نام دیں گے۔

18مئی کو ہی آئی جی سندھ ڈاکٹر کلیم امام کی جانب سے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو خط بھیجا گیا جس میں پولیس آرڈر 2002کی بحالی کے بل پر اپنی گذارشات پیش کی گئی تھیں۔

خط کےمتن میں بالخصوص پولیس آرڈر2002کے آرٹیکل نو، دس ، تیرہ ، پندرہ ، سترہ، سستائیس اور تینتیس کا حوالہ دیا گیا ۔پولیس آرڈر2002کے  یہ آرٹیکلز پولیس کے انتظامی کنٹرول ، ٹرانسفر، پوسٹنگ اور ضلعی حکومتوں سے روابط سے متعلق ہیں ۔

2016 میں سندھ پولیس کو سیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرانے کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی ۔ اس درخواست پر 7 ستمبر 2017کو سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے لکھا کہ آئی جی سندھ اپنے محکمے کے کنٹرول میں خودمختار ہے خاص طور پرپولیس میں ٹرانسفر اور پوسٹنگ کا اختیار آئی جی سندھ کو حاصل ہے۔

اس لئے پولیس کےمعاملات میں صوبائی حکومت ،صوبائی وزیر یا اتھارٹی کی دخل اندازی اب ختم ہوجانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:سندھ اسمبلی نے پولیس ایکٹ 2019 منظور کرلیا

سندھ حکومت بمقابلہ پولیس: اختیارات کی جنگ کون جیتے گا؟

اس سے قبل سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سندھ حکومت کے لئے اس وقت لوہے کے چنے ثابت ہوئے تھے جب حکومت سندھ نےانہیں ہٹانے کی کوشش کی اور معاملہ عدالت تک جا پہنچا جس پر سندھ ہائی کورٹ نے اپنا تاریخی فیصلہ دیا۔


متعلقہ خبریں