تجزیہ: پارٹی ایک مگر بیانیے دو …

تجزیہ: پارٹی ایک مگر بیانیے دو ...

مسلم لیگ ن میں جان ڈالنے کے لیے میاں نوازشریف نے ایک بار پھر اپنی دختر مریم نواز کو سیاسی اکھاڑے میں فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی اجازت دے دی ہے اور شاید اسی لیے ان کی کئی ماہ سے جاری زبان بندی اب ختم ہوتی نظر آ رہی ہے. سیاسی پنڈت تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف، مریم نواز کی زبان بندی اور شہبازشریف کے بیرون ملک ہونے کا پیپلزپارٹی نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری نے اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کھل کر کھیلنے کا مشورہ دیا جس پر عمل کر کے نوجوان سیاستدان نے سیاسی خلاء پر کرتے ہوئے حزب اختلاف کے رہنما کا پھرپور کردار ادا کیا۔

شاہد اسی خوف نے میاں نواز شریف کو زبان بندی ختم کرنے پر مجبور کیا اور خود جیل میں ہونے کے باعث انہوں نے اپنی بیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی۔ دوسری جانب طویل عرصے سے شریف برادران کے درمیان پیدا ہونے والی مبینہ دراڑ اب مریم نواز اور حمزہ شہباز کے درمیان بھی موجود دکھائی دے رہی ہے. جس طرح نواز شریف اور شہباز شریف کا بیانیہ مختلف نظر آتا رہا اسی طرح مریم نواز اور حمزہ شہباز کا بیانیہ بھی ایک دوسرے سے جدا محسوس ہو رہا ہے. مریم نواز اب بھی دعویٰ کر رہی ہیں کہ ان کے والد اور چچا کا بیانیہ ایک ہی ہے اور وہ ہے “ووٹ کو عزت دو” مگر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے بیانات میں یہ نعرہ نظر نہیں آ رہا. مریم نواز اور نواز شریف کے بیانات میں واضح طور پر سختی ہے جبکہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی تنقید میں جارحیت کی کمی نظر آتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے دیے گئے افطار ڈنر کے بعد جب ایک صحافی نے حمزہ شہباز سے سوال کیا کہ مریم نواز اور آپ میں سینئر کون ہے تو حمزہ شہباز نے جواب دیا کہ وہ دونوں کارکن ہیں. اس جواب سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ وہ مریم نواز کو اپنا قائد ماننے کو تیار نہیں ہیں. مسلم لیگ ن نے حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور ساتھ ہی 28 مئی سے عوامی رابطے شروع کرنے کے لیے پورے ملک میں جلسوں کا اعلان بھی کر دیا ہے.

عوامی رابطے سے قبل مسلم لیگ ن کو یہ فیصلہ بھی کرنا پڑے گا کہ انہوں نے کون سے بیانیے کو لے کر چلنا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ماضی کی طرح اس کا نقصان پوری پارٹی کو اٹھانا پڑے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں بھی مسلم لیگ ن کے اجلاس میں شریک رہنماؤں نے پارٹی قیادت کو ایک ہی بیانیہ لے کر چلنے کا مشورہ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی نئی ابھرتی ہوئی قیادت کیا کسی ایک سوچ پر متفق ہو سکے گی یا ماضی کی طرح اپنے اپنے بیانیے کو ہی لے کر آگے بڑھے گی.


متعلقہ خبریں