امن کانفرنس کا مقصد فلسطینیوں کی مدد ہے، وزیرخارجہ بحرین

امن کانفرنس کا مقصد فلسطینیوں کی مدد ہے، وزیرخارجہ بحرین

دبئی: بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد الخلیفہ نے کہا ہے کہ آئندہ ماہ منعقد ہونے والی ’امن کانفرنس‘ کا واحد مقصد فلسطینیوں کی مدد کرنا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امن کانفرنس کے ذریعے فلسطینیوں کی اس طرح مدد کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہاں کے لوگوں کی صلاحیتوں اور ان کے وسائل کو زیادہ بہتر طریقہ کار سے بروئے کار لایا جائے۔

ممتاز اخبار ’عرب نیوز‘ کے مطابق فلسطینیوں کی جانب سے اس ضمن میں مملکت کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہا گیا ہے کہ امن کانفرنس کے انعقاد سے قبل انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

آئندہ ماہ مناما، بحرین میں منعقد ہونے والی ’امن اقتصادی کانفرنس‘ کی میزبانی مشترکہ طورپر امریکہ اور بحرین کریں گے۔

اخبار کے مطابق بحرین اس بات کا حامی ہے کہ فلسطینیوں کو ان کا آئینی و قانونی جائز حق ملنا چاہیے اور ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ان کا حق ہے۔

عرب نیوز کے مطابق وائٹ ہاوس کی جانب سے اتوار کو اعلان کیا گیا تھا کہ امریکہ مناما میں جون 26-25 کو منعقد ہونے والی کانفرنس کی بحرین کے ساتھ مشترکہ طور پر میزبانی کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کے اعلان کے مطابق کانفرنس کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ مشرق وسطی امن منصوبے کے معاشی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔

فلسطینی قیادت کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ان سے امریکہ کے مجوزہ مشرقِ وسطی امن منصوبے کی حمایت میں آئندہ ماہ بحرین میں منعقد ہونے والی اقتصادی کانفرنس کے لیے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔


تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری جنرل صائب اراکات نے اس حوالے سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ہم سے کسی فریق نے بحرین کے شہر مناما میں ہونے والی کانفرنس سے متعلق رابطہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کی جانب سے کسی کو بھی اس بات کا اختیار نہیں دیا گیا ہے کہ وہ ان کی جانب سے کسی بھی بات چیت کے عمل میں شریک ہو۔

دسمبر 2017 سے فلسطینیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے بائیکاٹ کررکھا ہے۔ اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

یہ وہ فیصلہ تھا جسے کرنے کی کوئی بھی امریکی صدر ہمت نہیں کرسکا تھا کیونکہ اسرائیلی کی خواہش و کوشش تھی کہ بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے جب کہ فلسطینی اس کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے آئے ہیں۔

امریکی صدر کے اس اقدام پر پوری دنیا میں سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔

اخبار کے مطابق امریکہ کے اعلان کردہ امن منصوبے میں فلسطینی کم دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں امریکی منصوبہ اسرائیلی مفاد میں ہو گا۔

عرب نیوز کے مطابق مناما میں منعقد ہونے والی امن اقتصادی کانفرنس میں دنیا کے کئی ممالک کی حکومتوں کے نمائندگان، سول سوسائٹی کے اکابرین اور بزنس سے وابستہ اہم شخصیات شرکت کریں گی تو خیالات کے تبادلے کے لیے اچھے مواقع میسر آئیں گے  اور سرمایہ کاری کے امکانات پربھی مفید بات چیت ہوگی۔

اخبار کے مطابق  فلسطینیوں کے نقطہ نگاہ سے منعقد ہونے والی کانفرنس دراصل اسرائیلی قبضے کو جائز قرار دلوانے اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرانے کی ایک کوشش ہے۔ فلسطینیوں کے خیال میں فلسطینیوں کی معاشی خوشحالی کی باتیں انہیں ’لالی پاپ‘ دینے کی ایک اور کوشش ہے۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہدایت کی روشنی میں تیار کیا جانے والا’امریکی امن منصوبہ‘ جون میں دنیا کے سامنے منظر عام پر آئے گا۔

امریکی امن منصوبہ کیا ہے ؟

امریکہ میں برسر اقتدار موجودہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ ایک عرصے سے امن منصوبے پر کام کررہی ہے جسے عالمی ذرائع ابلاغ  ’ڈیل آف دی سینچری‘ کے نام سے بھی یاد کرتا ہے۔

ڈیل آف دی سینچری پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر اورنمائندہ خصوصی جیسن گرین بلیٹ نہ صرف کام کررہے ہیں بلکہ گزشتہ سالوں میں انہوں نے اسی ضمن میں مشرق وسطیٰ کے متعدد دورے بھی کیے ہیں۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق کشنر اور جیسن کے دورہ مشرق وسطیٰ کا بنیادی مقصد تیار کیے جانے والے امریکی امن منصوبے پر عرب ممالک کی حمایت حاصل کرنا تھا۔

مشرق وسطیٰ کے حالات پہ نگاہ رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اسی منصوبے میں مسئلہ فلسطین کا نیا حل بھی پیش کیا جا ئے گا۔

اکتوبر 2018 میں مشرق وسطیٰ کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی جیسن گرین بیلٹ نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تیار کردہ امن منصوبے میں اسرائیل کی سلامتی کی ضروریات کو اولین ترجیح حاصل ہوگی۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ فلسطینیوں کو بھی حقوق دلانے کی کوشش کی جائے گی۔

مؤقر اسرائیلی اخبار’ ٹائمز آف اسرائیل‘ کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے امن منصوبے میں فلسطین اور اردن کو ایک کنفیڈریشن میں تبدیل کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ستمبر 2018 میں کہا تھا کہ ان کا امن منصوبہ دو ، تین اور یا آئندہ چار ماہ کے اندر  پیش کردیا جائے۔ انہوں نے فلسطین اسرائیل تنازع کے لیے دو ریاستی حل کی تجویز کی بھی حمایت کی تھی۔

امریکہ نے چھ دسمبر 2017 کو بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے جنوری 2018 میں ایک فلسطینی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ اس کے حوالے سے خبر دی تھی کہ فرانسیسی سفارت کار امریکی انتظامیہ کی درخواست پر مصالحت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں جس کا مقصد فلسطینی قیادت کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ وہ امریکی امن منصوبے کو ایک موقع فراہم کرے اور اس کی تفصیلات جانے بغیر مسترد نہ کرے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کا دعویٰ تھا کہ فرانسیسی صدر کے مشیر اورلیان لوشوفالے نے کچھ عرصہ قبل رام اللہ میں پی ایل او کے سیکریٹری صائب اراکات اور فلسطیینی انٹلی جنس کے سربراہ ماجد فرج سے ملاقاتیں کی تھیں۔

ویب سائٹ کا وہائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار کے حوالے سے کہنا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم  کیے جانے کے بعد مذکورہ امید کے سوا فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ تمام تر تعلقات موقوف ہو چکے ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ وہائٹ ہاؤس نے اس امر کی تردید کی ہے کہ صائب اراکات کی جانب سے فلسطینی مرکزی کونسل کو پیش کی جانے والی دستاویزات دراصل ڈیل آف دی سینچری کی شقوں پر مشتمل تھیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے جون 2018 میں ہی واضح کردیا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے جلد ایک منصوبہ پیش کیا جائے گا خواہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اس کا حصہ بنیں یا نہ بنیں۔

فلسطینی اخبار ’القدس‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کشنر نے کہا تھا کہ اگر صدر عباس مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے تیار ہیں تو ان کے ساتھ بات چیت کی جاسکتی ہے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھرعین ممکن ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا ایک نیا منصوبہ پیش کیا جائے۔

روسی وزیر خارجہ کی اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات طے پاگئی

روس کے وزیرخارجہ سرگئی لیورو نے ماسکو میں مختلف فلسطینی گروپس سے ملاقات کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ امریکی تجویز میں مشرقی القدس دارالحکومت کے ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم دنیا کے اکثر ممالک کی طرح فلسطینی تنازع کے حل کے لیے پختہ عزم رکھتے ہیں۔

فروری 2019 میں روس کے وزیرخارجہ سرگئی لیورو نے زور دے کر کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ، جنرل اسمبلی اورعرب امن اقدام سے ہوکر نکلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی تجویز کردہ ’صدی کی ڈیل‘ 1967 کی سرحدوں پر مشتمل ایک فلسطینی ریاست کی ضمانت دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکہ اس مسئلے کے حل کے لیے جان بوجھ کرنت نئے حل پیش کررہا ہے۔

روس کے وزیرخارجہ نے کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ دوسال سے صدی کی ڈیل پیش کرنے کا وعدہ کرتا آرہا ہے۔

سرگئی لیورو نے کہا تھا کہ ہمیں اب تک جو معلومات ملی ہیں ان کے مطابق ’صدی کی  ڈیل‘ سے تنازع کے حل کے لیے جو کچھ اب تک حاصل ہوا ہے، وہ بھی ضائع ہوجائے گا۔


متعلقہ خبریں