تجزیہ: لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا


لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا کِسے کہاں مارا جا سکتا ہے؟ جی صرف اپنے منہ پر۔ یہ میرا یا آپ کا قول نہیں، صدیوں کا سبق ہے، بغیر لڑے جنگیں ہارنے والوں کے لیے ۔

اصل میدانِ جنگ کب سجا؟ اُن سب نے دیکھا، جو پردے کے پیچھے دیکھ سکتے ہیں۔ پہلی لڑائی، پہلے دھرنے سے شروع ہوئی۔ احتجاجی لشکر نے پی ٹی وی فتح کر لیا، وزیراعظم ہاؤس فتح کرنے کا منصوبہ مگر ناکام رہا۔ کیوں اور کیسے ؟ یہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔

دوسری لڑائی غداری کے فتوؤں کی گونج میں ڈان لیکس سے شروع ہوئی، شہر اقتدار کو روندنے کے لیے اسلام آباد لاک ڈاؤن میں بدلی، پھر بظاہر بیچ بچاؤ کے لیے پانامہ کیس کا روپ دھار کر عدالت میں منتقل ہو گئی۔ آخر کار وہ نتیجہ نکل ہی آیا، جو پہلے اور دوسرے دھرنے میں نہ نکل سکا تھا ۔

نااہلی کے بعد نواز شریف کو لڑنا ہی تھا، مگر تنہا۔ آصف زرداری کو انہوں نے ساتھ ملانے کی کوشش کی، کالا کوٹ مگر آڑے آگیا۔ وہی کالا کوٹ جسے پہن کر نواز شریف سپریم کورٹ پہنچے تھے، میمو گیٹ میں، زرداری حکومت کے خلاف ۔ کچھ پرانی تلخ یادیں تھیں، کچھ نئی’’مجبوریاں ‘‘ ۔ زرداری نے نوازشریف سے منہ موڑ لیا۔ اب ن لیگ عتاب کا نشانہ تھی، جیسے کبھی پیپلزپارٹی۔ زرداری نے اِس بار صفوں کے اُس پار کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ اپنے غیر فطری حلیفوں کے ساتھ، نوازشریف پر چور چور اور غداری کے گولے برسانے کے لیے۔ اِس آس پر کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا اُن کا بیان بھلا دیا جائے گا، اور سندھ کی اینٹوں کی اینٹیں اکھاڑنے کا الزام بھی، اپنے مبینہ فرنٹ مینوں کے ذریعے ۔

نواز شریف کو بیک وقت دو لڑائیاں لڑنی پڑیں، پرایوں سے اور اپنوں سے بھی۔ وہ میدان جنگ گرماتے، شہباز شریف مگر اُسے بھجاتے، خود کو جھلسنے سے بچانے کے لیے۔ نواز شریف کی نااہلی سے جیل کا راستہ، دراصل صرف تحریک انصاف کے اقتدار کی جانب جاتا تھا، جاننے والے جانتے تھے، زرداری اور شہبازشریف مگر یہ جان نہ پائے، یا جانتے بوجھتے آنکھیں انہوں نے بند کر لیں، جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر بند کرتا ہے، خوف اور دہشت سے۔

تحریک انصاف حکومت میں آئی ، اُسے آنا ہی تھا۔ پھر وہی ہوا، جو کسی شہر کے فتح ہونے کے بعد ہوا کرتا ہے، مفتوحہ شہروں کے سابق وزیروں مشیروں کو بھی کبھی امان ملی ہے؟

اب شہباز شریف جیل کے اندر سے ہو کر باہر جا چکے، زرداری باہر سے اندر جانے کو ہیں، کہنے والوں کا یہ کہنا ہے۔ اوپر سے نیچے تک، ن لیگ اور پیپلز پارٹی پر مقدموں اور گرفتاریوں کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔ وہ جنگ جو الیکشن سے پہلے لڑے بغیر انہوں نے ہاری، اب وہی جنگ وہ لڑنا چاہتے ہیں، جیتنے کے لیے۔ وقت مگر اب ان کے ہاتھ سے نکل چکا۔ اُوپر، بہت اُوپر’’ٓ آسمانوں ‘‘ میں ابھی اس کی منظوری نہیں۔ اتنا ہی اگر یہ آسان ہوتا تو عمران خان وزیراعظم بن پاتے؟ اسمبلی میں چند ووٹوں کی برتری سے؟ مالا مال ن لیگ اور پیپلزپارٹی، اُوپر سے مولانا صاحب کا زرخیز سیاسی دماغ، ایسے میں چند مہرے اُدھر سے، اِدھر کِھسکانا مُشکل تھا؟

وزارت عظمیٰ کے لیے  پیپلز پارٹی کے ووٹ شہباز شریف کے بکسے میں ڈلتے ڈلتے کیوں رہ گئے؟ عین آخری لمحات میں۔ ن لیگ نے پنجاب میں حکومت بنائی نہ وہ بنا سکتی تھی، اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود، ایسا کیوں؟ یہ سب کڑیاں ہیں، اُن سب کے لیے، جو کڑیوں سے کڑیاں ملانا جانتے ہیں۔

اپوزیشن کے لیے اب ایک بھیانک منظر ہے۔ یہ منظر بدل سکتا تھا، جیسے پہلے دھرنے کے بعد بدلا تھا، اگر زرداری نواز شریف کی صف میں کھڑے ہو جاتے، الیکشن سے پہلے ۔ خوف کے سائے میں بھٹک اور بکھر جانے والی اپوزیشن اب سر جوڑے ہوئے ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کا شور شرابہ ہے، ابھی نہیں تو کبھی نہیں کے نعرے بلند ہو رہے ہیں ۔’’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘ پنجابی کا یہ محاورہ تو آپ نے سُن رکھا ہو گا، اور یقینناً اپوزیشن نے بھی۔ یعنی کام وہی ہے جو مقررہ وقت پر ہو، بے وقت کام محض ٹکریں مارنا ہے۔

اصل لڑائی تو پہلے ہی ختم ہو چکی، اب ہوا میں مکے لہرانے کا کیا فائدہ؟ لڑائی کے بعد یاد آنے والے یہ مُکے کِسے، کہاں مارنے ہیں، فیصلہ خود اپوزیشن کر لے۔


متعلقہ خبریں