بستر مرگ کے 5 بڑے پچھتاوے


جب انسان کا دامن وقت کی اشرفیوں سے خالی ہونے لگے اور زندگی کا اثاثہ اختتام کے قریب پہنچ جائے تو بہت سے ’کاش‘ اس کی ذات کو گھیر لیتے ہیں۔

کاش میں نے اپنی خواہش کے مطابق زندگی بسر کی ہوتی

یہ فقرہ عمر کے آخری لمحات میں بہت لوگوں کی زبان پر آتا ہے اور سب سے زیادہ لوگ اسی بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ جب انسان پلٹ کر ماضی کی جانب نظر دوڑاتا ہے تو نہ جانے کتنے خوابوں کے ادھورے ہونے کا احساس دامن پکڑ لیتا ہے۔ ان میں سے ایک پچھتاوا زندگی اپنی خواہش کے مطابق بسر نہ کرنا ہے۔

کاش میں نے اتنی زیادہ محنت نہ کی ہوتی
یہ احساس ان افراد کو ہوتا ہے جنہوں نے زندگی میں کامیابیوں کے حصول کے لیے بہت بھاگ دوڑ کی ہو۔ انہیں آخری وقت میں اپنا بچپن اور بڑھاپا بہت زیادہ یاد آتا ہے۔

کاش میں نے اپنے جذبات کے اظہار کی ہمت کی ہوتی

لوگ دوسروں کے ساتھ چلنے کے لیے اپنے جذبات چھپا لیتے ہیں اور پھر سمجھوتے کرتے کرتے ان کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ عمر کے آخری حصے کا یہ بڑا پچھتاوا ہے کہ بہت سے مواقع پر جذبات کا اظہار نہیں کیا۔

کاش میں نے اپنے دوستوں سے رابطہ رکھا ہوتا

انسان اپنی زندگی میں خواہشات کا پیچھا کرتے ہوئے اتنا آگے نکل جاتا ہے کہ اس کے دوست اور رشتے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آخرکار انسان کو شدت سے احساس ہوتا ہے کہ جس چیز کو کامیابی سمجھ کر اس کے پیچھے دوڑتا رہا وہ اصل میں کامیابی تھی ہی نہیں۔ جب انسان کا آخری وقت آتا ہے تو اسے کامیابیوں کی نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

کاش میں نے اپنے آپ کو خوش ہونے دیا ہوتا

بہت سارے لوگوں کو عمر بھر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ خوش رہنا ہر کسی کا اپنا انتخاب ہے، ہم اپنی عادتوں میں الجھے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو دائروں تک محدود کر کے خود کو بہت ساری خوشیوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ تبدیلی کا خوف انہیں خوش نہیں ہونے دیتا۔


متعلقہ خبریں