’’ماریہ کو دیکھ لیا تو ۔۔۔ نہ سحری ہو گی نہ افطاری‘‘

’’ماریہ کو دیکھ لیا تو ۔۔۔ نہ سحری ہو گی نہ افطاری‘‘

لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے نہایت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرگودھا میں تیزاب گردی کا نشانہ بننے والی ماریہ کو اگر کوئی دیکھ لے تو وہ نہ سحری کرسکے گا اور نہ ہی اس سے افطاری ہوگی۔

ہم نیوز کے مطابق تیزاب گردی کا نشانہ بننے والی ماریہ کی جناح ہسپتال میں عیادت کے بعد وہ ذرائع ابلاغ سے بات چیت کررہے تھے۔

شہباز گل نے بتایا کہ 21 یا 22 سالہ ماریہ پر دو سال قبل تیزاب پھینکا گیا اور شقی القلبی کا یہ عالم تھا کہ جب اس کے زخم کچھ بھرنے لگتے تھے تو انہیں دوبارہ نوچا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ماریہ کا یہاں علاج ہوگا، ڈاکٹرز علاج شروع کریں گے تو ان کی کوشش ہو گی کہ اس کی بینائی بحال ہو۔ انہوں نے بتایا کہ ماریہ کے والدین کو بھی رہنے کے لیے یہاں رہائش فراہم کی گئی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ترجمان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وزیراعلیٰ نے اس کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماریہ کی امداد کے لیے وزیراعلیٰ نے پانچ لاکھ روپے کا اعلان بھی کیا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ماریہ کے ساتھ پیش آنے والا سانحہ دو سال پرانا ہے لیکن سابق ’عظیم وزیراعلیٰ‘ نے اس کا نوٹس نہیں لیا تھا جب کہ موجودہ صوبائی حکومت نے واضح طور پر مجرمان کی گرفتاری کے احکامات بھی دیے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے میں ظلم بڑھتا جارہا ہے اور خواتین و بچوں پر تو ظلم ڈھانے کی حد ہی کردی گئی ہے۔

انہوں نے اس ضمن میں مثال دی کہ گزشتہ روز ایک ملازمہ نے مالک کا باتھ روم استعمال کرلیا تو اسے جلادیا گیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے ایک سوال پر واضح کیا کہ اگر ماریہ کے خاندان والے اس سلسلے میں صلح کرنا بھی چاہیں گے تو نہیں کرسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماریہ پوری قوم کی بچی ہے۔

21/22 سالہ ماریہ کے ساتھ تیزاب گردی کا واقعہ دو سال قبل ڈنگہ کے علاقے بھیسلرانوالہ میں پیش آیا تھا جہاں ایک جعلی پیر عزیز شاہ نے مبینہ طور پر تیزاب پھینک کر اس کا پورا چہرہ اور جسم جلا دیا تھا۔

ماریہ اور اس کے اہل خانہ پرڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ اسی پر نہیں رکا بلکہ اس سے ڈرا دھمکا کر سادہ کاغذات پر دستخط کرائے گئے اور اس سلسلے میں پولیس کی معاونت بھی حاصل کی گئی۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق ڈھائے جانے والے مظالم کی جب تھانہ میانی میں اطلاع دی گئی تو مقدمہ درج کرنے کے بجائے بااثر جعلی پیر کا ساتھ دیا گیا اور ماریہ کے خاندان کو خاموش کرادیا گیا۔

مظلوم ماریہ کے بھائی عبدالرحمان نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ پولیس نے متعدد کاغذات پر دستخط کرائے تھے۔

جعلی پیر عزیز شاہ کے گھر گزشتہ 13 سال سے خادمہ کی حیثیت سے کام کرنے والی مظلوم ماریہ کو دو سال تک خفیہ جگہ پہ اس طرح چھپا کر رکھا گیا کہ والدین تک سے ملنے کی اجازت نہ دی گئی۔

ماریہ کے والد نے اپنی بچی پر ڈھائے جانے والے ظلم سے متعلق وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی تھی جس کے بعد وہ وائرل ہوئی اور وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے مظلوم ماریہ اور اس کے خاندان کا ساتھ  دینے کا اعلان کیا۔


متعلقہ خبریں