’امریکی خفیہ ایلچی تہران پہنچ گیا‘

امریکی خفیہ ایلچی تہران پہنچ گیا:سپریم سلامتی کونسل کادعویٰ

تہران: واشنگٹن نے ایران سے پیدا شدہ تنازعہ پربات چیت کے لیے اپنا خفیہ نمائندہ خصوصی تہران بھیج دیا ہے۔ امریکی نمائندہ خصوصی دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کے ہمراہ ایران پہنچے ہیں۔

مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی کئی چیدہ چیدہ شخصیات اس وقت ایران کے دورے پر ہیں جہاں وہ اعلیٰ حکام سے گفت و شنید کررہی ہیں۔ اس بات چیت کا مقصد دونوں ممالک کے مابین پیدا ہونے والی تلخی کو کم کرنا اور واشنگٹن و تہران کو مذاکرات کی میز پہ لانا ہے۔

امریکہ کے نمائندہ خصوصی کی تہران آمد کا دعویٰ ایران کی ’سپریم سلامتی کونسل‘ کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اس دعوے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے بات چیت کے لیے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو تہران بھیجا ہے جن میں امریکی بھی شامل ہیں۔

سپریم سلامتی کونسل کے دعوے میں کہا گیا ہے کہ جو امریکی تہران پہنچے ہیں وہ دراصل واشنگٹن کی جانب سے بھیجے گئے ’خفیہ ایلچی‘ ہیں۔

’دنیا ئے خبر‘ کی ممتاز ویب سائٹ ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ کے مطابق ایران کی سپریم سلامتی کونسل نے واضح کیا ہے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے صاف انکار کردیا ہے۔

سلامتی کونسل کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس وقت تک واشنگٹن سے کوئی بات نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنا دھمکی آمیز رویہ تبدیل نہیں کرتا اور جاری طرز عمل میں تبدیلی نہیں لاتا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ایران کی سپریم سلامتی کونسل کے ترجمان کیوان خسروی کے بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی مندوبین کی حیثیت سے تہران کے دورے پرآنے والی شخصیات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی سپریم سلامتی کونسل کے ترجمان ‘کیوان خسروی’ نے کہا کہ امریکی مندوبین کی حیثیت سے تہران کے دورے پرآنے والی شخصیات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں بیشتر امریکی ہیں۔ ان میں سےبعض کے بارے میں معلومات شیئرکی گئی ہیں اور بعض کےنام مخفی رکھے گئے ہیں۔

ایران کی سپریم سلامتی کونسل کے ترجمان کا دعویٰ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکہ اور ایران کے تعلقات کشیدگی کی انتہا پر ہیں، دونوں ممالک ایک دوسرے کو تسلسل کے ساتھ دھمکیاں دے رہے ہیں اور امریکہ کی جانب سے دو لڑاکا طیارے بردار بحری بیڑے خلیج فارس میں تعینات کیے جا چکے ہیں۔

امریکی بحری بیڑوں کو جدید ترین  دفاعی میزائل سسٹم ’پیٹریاٹ‘ کی مدد و معاونت حاصل ہے جب کہ مشرق وسطیٰ میں بھی امریکی افواج متعین ہوچکی ہے۔

ایران کی سپریم سلامتی کونسل کی جانب سے کیے جانے والے دعوے کے جواب میں تاحال وائٹ ہاؤس، امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق 20 مئی کو سلطنت اومان کے وزیرخارجہ یوسف بن علوی نے بھی تہران کا دورہ کیا تھا جہاں ان کی اپنے ایرانی ہم منصب جواد ظریف سے ملاقات ہوئی تھی۔ سلطنت اومان کے ایران اور امریکہ دونوں کے ساتھ اس وقت یکساں تعلقات قائم ہیں۔

عرب ویب سائٹ نے بعض مصدقہ ذرائع سے یہ خبر بھی دس دن قبل دی تھی کہ 12 مئی کو امیر قطر الشیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے ایران کا دورہ کیا تھا لیلکن ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے اس خبر کی تردید کی تھی۔

برطانوی نشریاتی ادارے نے 15 مئی کو خبردی تھی کہ قطر کا ایک ’اہم طیارہ‘ تہران پہنچا تھا۔ نشریاتی ادارے کا دعویٰ تھا کہ قطر، امریکہ اور ایران کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے بھی دونوں فریقین سے اچھے تعلقات ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق عراق کے وزیرخارجہ عادل عبدالمہدی نے بھی تین دن قبل کہا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ سطحی وفد تہران اور واشنگٹن بھیج رہے ہیں تاکہ دونوں کے درمیان موجود کشیدگی کم کرائی جا سکے اور مشرق وسطیٰ کو ایک نئی جنگ سے محفوظ رکھا جا سکے۔

ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ’ارنا‘ نے گارجینز کونسل کے سیکریٹری آیت اللہ احمد جنتی کا ایک بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ اچھی طرح سے ایران کی جنگی صلاحیتوں سے واقف ہے اور وہ کبھی بھی ایران کے ساتھ جنگ جیسا انتہائی قدم نہیں اٹھائے گا۔

ایران کے روس میں سفیر مہدی ثنائی نے ایک کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران بات چیت اور مذاکرات پر یقین رکھتا ہے مگر وہ اپنے مفادات کے تحفظ میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔

ایرانی سفیر کا یہ خطاب بھی ارنا نے لیڈ اسٹوری کے طور پر ویب سائٹ پہ شائع کیا ہے۔

ایران کے اعلیٰ حکام کی جانب سے منظر عام پرآنے والے ان بیانات کے متعلق عالمی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ ابھی گزشتہ دنوں ہی امریکی صدر سمیت دیگر اعلیٰ امریکی حکام کے دھمکی آمیز بیانات منظر عام پرآئے تھے تو یہ ’جواب آں غزل‘ کے طور پر دیے گئے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی گزشتہ دنوں اپنے دھمکی آمیز بیان میں کہا تھا کہ ایران تصادم کی صورت میں صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔

امریکہ ایران کشیدگی کے متعلق امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ (وی او اے) نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ دونوں ممالک کے مابین جنگ ہوئی تو یہ محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے خطے میں پھیل جائے گی جس میں ’فرقہ وارانہ‘ رنگ بھی شامل ہوگا۔

وی او اے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان، بھارت اور جنوبی ایشیا سمیت دیگر ممالک بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

رپورٹ میں ماہرین کی آرا کو شامل کیا گیا ہے جس میں ان کا مؤقف ہے کہ کشیدگی کے باوجود دونوں کے درمیان جنگ کے مکانات بہت کم ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ دونوں ممالک کی پالیسی بظاہر جنگ سے گریز کی ہے اور جنگ کوئی نہیں چاہتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے الجزیرہ ٹیلی ویژن سے وابستہ سنیئر صحافی، اسامہ جاوید کا کہنا ہے کہ یمن، بیروت، لبنان، عراق اور خطے کے دیگر ممالک میں چونکہ ایرانی اثر و رسوخ موجود ہے اس لیے ان علاقوں میں براہ راست جنگ کے بجائے ’پراکسی وار‘ شروع ہوسکتی ہے۔

وی او اے نے جن ماہرین کی آرا جمع کی ہیں ان کے مطابق ایران امریکہ جنگ کی صورت میں پاکستان کے لیے غیر جانبدار رہنا آسان نہ ہوگا کیونکہ امریکہ کی خواہش ہوگی کہ پاکستان اس کا ساتھ دے جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے بہت مشکل صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف اس وقت پاکستان کے دورے پر ہیں جسے خطے کے ماہرین انتہائی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں