کوئٹہ میں ’بے مصرف‘ عمارت لائبریری میں تبدیل


کوئٹہ: اردو کے شہرہ آفاق شاعر اور فلمی نغمہ نگار گلزار نے اکیسویں صدی کے ’ڈیجٹل عہد‘ میں کتب بینی کی ’ٹوٹتی‘ عادتوں، بند ہوتی لائبریریوں اورچکن تکے و ملائی بوٹی کی دکانوں میں تبدیل ہوتے ’کتب خانوں‘ کا ’نوحہ‘ کچھ عرصہ قبل اس طرح قلم بند کیا تھا کہ ؎

کتابیں جھانکتی ھیں
بند الماریوں کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ھیں
مہینوں اب ان سے ملاقات نہیں ھوتی
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں
اب اکثر گزر جاتی ھیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ھیں اب کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ھو گئی ھے
بہت حسرت سے تکتی ھیں جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن سے سر کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ھیں
کوئی صفحہ پلٹتا ھوں تو
ایک سسکی نکلتی ہے
کہیں لفظوں کے معنی گر پڑے ھیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ھیں وہ سب الفاظ
جن کے اب کوئی معنی نہیں ھوتے
بہت سی اصطلاحیں ھیں
جو مٹی کے اسکولوں کی طرح بکھری پڑی ھیں
دلاسوں نے اب مدروف کر ڈالا
زباں پر جو ذائقہ آتا تھا صفحہ پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے ایک جھپکی گزرتی ھے
بہت تہہ بہ تہہ کھلتا چلا جاتا ھے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ کٹ گیا
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے
کچی گودی میں لیتے تھے
کبھی گٹھنے کو اپنے ریل کی
صورت بنا کر نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے
چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم ملتا رھے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
کتابیں مانگنے گرنے اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ھوگا وہ شاید اب نہیں ہوں گے

ممتاز تخلیق کار نے جو کچھ کتب سے رشتہ ٹوٹنے کے حوالے سے لکھا تھا وہ زیادہ تر ان افراد کے لیے تھا جو مطالعے کے دوران ماضی میں بارہا صفحہ پلٹنے کا ’ذائقہ‘ چکھ چکے ہیں اور جنہیں کتب بینی کے دوران ان میں رکھے خشک پھولوں کی ’باسی‘ خوشبو بھاتی تھی۔

۔۔۔ یہ تو نہیں معلوم کہ کتب بینی کی ’لذت‘ میں مبتلا رہ چکنے اور گلزار کی تخلیق پر’واہ واہ واہ‘ کے تعریفی ڈونگرے بجاتے کتنے افراد نے دوبارہ لائبریریوں کا رخ کیا؟ لیکن ہم آپ کی ملاقات چند ایسے نوجوانوں سے کرا رہے ہیں جنہوں نے ’بے مصرف‘ پڑی ادھوری سرکاری عمارت کولائبریری میں تبدیل کر کے شہر کے متعدد نوجوانوں میں کتب بینی کا شوق جگا دیا ہے۔

جی ہاں! بات ہو رہی ہے سریاب روڈ کوئٹہ کے نوجوانوں کی جنہوں نے زیرتعمیر اسپتال کی عمارت کا جب کوئی سرکاری ’مصرف‘ نہ دیکھا تو اسے اپنی مدد آپ کے تحت ’لائبریری‘ میں تبدیل کردیا۔


سریاب روڈ پہ واقع غوث آباد، کوئٹہ میں بے نظیر بھٹو شہید اسپتال قائم کیا گیا تھا۔ اسپتال کا افتتاح 2009 میں کیا گیا مگر انتظامی بد انتظامی اور بدترین حکمرانی کی ’روایت‘ دہرائی گئی تو اسپتال تاحال فعال نہ ہو سکا جس کی وجہ سے تعمیر کی گئی عمارت ویران کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگی تھی۔

ایسے میں ’کتاب دوست‘ بسم اللہ جان کے دل میں خیال آیا تو انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ’بے مصرف‘ عمارت کو لائبریری میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

بسم اللہ جان نے جب یہ بیڑا اٹھایا تو اس وقت وہ تنہا ہی تھے مگر پھر رفتہ رفتہ قافلہ اس طرح بنا کہ اب وہاں روزانہ نوجوانوں سمیت مختلف عمروں کے افراد بڑی تعداد میں آتے ہیں اور ’ذہنی تسکین‘ کا سامان کرتے ہیں۔

شعور کو جلا بخشنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں جو کل تک محلوں گلیوں میں بیٹھ کر وقت ضائع کرتے تھے اور ’شاید‘ کسی حد تک ہمارے ’بوسیدہ‘ نظام کے شاکی بھی تھے مگر اب وہ جب علم کی پیاس بجھاتے ہیں تو صحتمند بحث و مباحثہ بھی کرتے ہیں۔ اس بحث کے بعد وہ نا امیدی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان کی آنکھوں میں امید کے دیے جلتے ہیں کیونکہ شعورو آگاہی نے ان کے اذہان کو اجالا بخشا ہے۔


بسم اللہ جان لائبریری کے قیام میں بھرپور مدد و معاونت پر سابق صوبائی وزیر اور پی پی پی کے صوبائی صدرحاجی علی مدد جتک کے شکر گزار ہیں۔

اپنی مدد آپ کے تحت قائم کردہ لائبریری میں ایک ہزار سے زائد کتب موجود ہیں۔ لائبریری میں جہاں مختلف عمومی موضوعات پر کتب موجود ہیں وہیں علم کے ان پیاسوں کو بھی مایوسی نہیں ہوتی جو فلسفے جیسے ’دقیق‘ اور سیاسیات جیسے ’ثقیل‘ موضوعات پر کچھ جاننے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

؎ جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

۔۔۔ کے مصداق کوئٹہ میں علم کے متلاشی ’متوالوں‘ نے اپنی مدد آپ کے تحت میزوں اور کرسیوں کا بھی بندوبست کر لیا ہے جہاں نہایت اطمینان و سکون سے بیٹھ کر مطالعے کا ’لطف‘ اٹھایا جاتا ہے۔ میزوں اور کرسیوں کی وجہ سے ان کی ’تھکن‘ بھی دور ہو جاتی ہے جو دور دراز کا سفر طے کرکے علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں۔

لائبریری کے ایک حصے میں ہماری ملاقات نوجوان کامران سے ہوئی جو مطالعے میں اس قدر منہمک تھے کہ ہمارے ’پاس‘ آنے کا انہیں احساس تک نہ ہوا مگر ہم نے بھی ان کے ’استغراق‘ کے عالم میں دخل اندازی ضروری سمجھتے ہوئے ان کی محویت ’چھناکے‘ سے ریزہ ریزہ کر دی۔

جب ’محویت‘ ٹوٹ چکی تو ہمارے جانب سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پہلے دوستوں کی بیٹھک میں مطالعہ کرتے تھے مگر اس میں بہت مشکلات درپیش ہوتی تھیں لیکن اب خدا کا شکر ہے کہ نہایت اطمینان و سکون سے مطالعہ کرتے ہیں اورآپ کی طرح کوئی ’مراقبے‘ سے جگاتا بھی نہیں ہے۔ (انہوں نے مسکراتے ہوئے ازراہ تفنن کہا توہم نے بھی کی جانے والی ’گستاخی‘ پر معذرت کر لی)۔

لائبریری کے پرسکون ماحول میں کامران کو صرف ایک فکر لاحق ہے کہ اگر ’خدانخواستہ‘ حکومت ’جاگ‘ گئی اور اس نے اسپتال فعال کر کے بیمار ’اجسام‘ کا علاج شروع کردیا تو ’روح‘ کے پیاسوں کا کیا بنے گا؟ وہ کہاں جائیں گے؟

کوئٹہ جیسے لاکھوں آبادی والے شہر میں سرکاری سطح پر صرف ایک لائبریری ہے جس میں طلبا و طالبات کا بے پناہ رش دکھائی دیتا ہے۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب دور دراز اور نواحی علاقوں سے یہاں آنے والے طلبا و طالبات جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مطالعے سے محروم رہ جاتے ہیں اور مایوسی چہروں پہ سجائے لوٹتے ہیں۔

کامران سمیت دیگر نوجوان بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ لائبریری کے قیام کے لیے مستقل بنیادوں پر جگہ فراہم کی جائے تاکہ انہیں لائبریری سے ’بیدخلی‘ کا ڈر و خوف نہ ہو۔


کوئٹہ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد بھی شہر میں لائبریریوں کے قیام کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں حکومت کو عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ طلبا و طالبات سمیت علم کے متلاشی افراد کو ’مایوسی‘ نہ ہو اور لوگوں کا کتاب سے رشتہ جڑا رہے جو دراصل ذہنی بالیدگی اور آگاہی کی ضمانت ہے۔


متعلقہ خبریں