آپ بیتی: صحافتی ذمہ داری، شیشہ مافیا اور تشدد

قانون اشرافیہ کی لونڈی ہے

آپ بیتی: شیشہ مافیا، صحافتی ذمہ داری اور تشدد

14 مئی کی سہ پہر کو احتساب عدالت سے دفتر جانے کے لیے کشمیر ہائی وے پر گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا کہ اسائنمنٹ ڈیسک سے کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ آج کی تاریخ میں ایک پیکج بنانا ہے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہر اقتدار میں درجنوں شیشہ کیفے پولیس، انتظامیہ اور چند صحافیوں کی پشت پناہی میں چلائے جا رہے ہیں۔

سچ بتاؤں تو اس وقت گاڑی کی رفتار 60-70 ہو گی، جبکہ پیکج کی معلومات کے بعد میرے دل کی دھڑکن کی رفتار 100 سے تجاوز کر چکی تھی، اس لیے نہیں کہ مجھے یہ پیکج دیا کیا گیا تھا، بلکہ اس لیے کہ مجھے معلوم تھا کہ شہر کے بیشتر بڑے کرائم رپورٹرز اس دھندے میں ملوث ہیں۔

دفتر پہنچا تو بیوروچیف کی ہدایات کے مطابق ڈپٹی کمشنر اسلام آباد (جنکو ٹؤیٹر بوائے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) حمزہ شفقات کو کال کی، اس پیکج پر انکا مؤقف معلوم کرنے کے لیے وقت مانگا تو انہوں نے سی ڈی اے سیکرٹریٹ بلا لیا۔ وہ اس وقت چیف کمشنر اسلام آباد اور چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد سے ملاقات کے سلسلہ میں سی ڈی اے کے چیئرمین آفس میں موجود تھے۔

ہم نیوز کے چیف کیمرہ مین کاشف باجوہ کے ساتھ سی ڈی اے سیکرٹریٹ پہنچا، تقریباً  شام کے چار بجے کا وقت تھا، ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات سے چیئرمین آفس میں ملاقات ہوئی، ان کو بتایا کہ یہاں کے شہریوں کی رگوں میں زہر گھولنے کا مَکروہ کاروبار کرنے والے شیشہ مافیا کے خلاف پیکج بنا رہا ہوں۔ اس پر انہوں نے دریافت کیا کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں؟ یہ ایک منظم مافیا ہے اور بعد میں آپ کے پیٹی بھائی ہی اس پر ایکشن نہ  لینے کی سفارش کریں گے۔

میں نے کیمرہ پر ہی سوال کر ڈالا کہ آپ شہر بھر میں جعلی دودھ کے خلاف کارروائی کرتے ہیں شیشہ مافیا کے خلاف کیوں آپ کے پر جَل جاتے ہیں؟اس پر انہوں نے کہا کہ ہم شیشہ کیفیز کے خلاف تمباکو اِیکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہیں، عدالت عظمیٰ کے احکامات بھی ہیں، اس وقت اگر کوئی شیشہ کیفے شہر میں چل رہا ہے تو آپ نشاندہی کریں، ہم کارروائی کریں گے۔

کیمرہ بند ہوا تو حمزہ شفقات مسکرا رہے تھے، کہنے لگے آپ ایک نوجوان صحافی ہیں، خیال کریں۔ ان کے بعد چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد سے ملاقات کی (عامر علی احمد حمزہ شفقات کے استاد مانے جاتے ہیں)۔ انہوں نے اس پیکج بنانے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ دفتر سے یہ کام ذمہ لگایا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔

14 مئی کی سہ پہر سے 16 مئی کی افطار تک میرے جن رپورٹر ساتھیوں کو اس پیکج کے بارے میں معلوم ہوا وہ مجھے مفت مشورہ دیتے رہے کہ دفتری انتظامیہ کو بتاؤ کہ اس پیکج میں سیکیورٹی رِسک ہے۔ میں نے دفتر انتظامیہ اور بیوروچیف ابراہیم راجہ کو اس حساس معاملہ سے متعلق آگاہ کیا۔ انہوں نے ہدایات دیں کہ ہم نے اس پیکج میں اخلاقی فتوے صادر نہیں کرنے، شیشہ پینے والوں کے منہ پرکیمرہ نہیں مارنا اور نہ  ان سے کوئی سوال کرنا ہے۔ صرف کیفیز کے مختلف مالکان اور مینجرز سے انکے مؤقف کی درخواست کرنی ہے، مؤقف دے دیا تو ٹھیک ورنہ واپس آ کر پیکج میں بتا دینا ہے کہ مؤقف مانگنے کے باوجود مؤقف فراہم نہیں کیا گیا۔

16 مئی کی شام کو افطار کے بعد اسائمنٹ ڈیسک کو کال کر کے کیمرہ مین اور ڈرائیور کو بلایا اور پیکج کے لئے روانہ ہو گیا۔ پیکج پر جانے سے قبل مختلف ذرائع سے معلومات اکٹھی کیں کہ شہر میں کتنے شیشہ کیفے ہیں اور ان کی سرپرستی کون کر رہا ہے؟ پتہ چلا کہ چھوٹے بڑے 70 سے زائد شیشہ کیفے اس وقت شہر میں چل  رہے ہیں جن میں سے 90 فیصد کے پیچھے صحافی، پولیس اور انتظامیہ کے افسران ہیں۔

ساڑھے آٹھ بجے رات  کا وقت تھا، گاڑی سیکٹر اِی سیون میں ٹیکساس ہوٹل کے عقب میں تیسری منزل پرقائم ’’لاٹے‘‘ کے نام سے معروف شیشہ کیفے پہنچا۔ اس کیفے کے بارے شہر میں مشہور تھا کہ کوئی اتھارٹی اس شیشہ کیفے کو بند نہیں کر سکتی، یہاں کوئی ریڈ نہیں کرتا، اس کیفے کے پیچھے بااثر افراد ہیں۔

کیمرہ مین کو دفتر کی پالیسی سے آگاہ کیا، اور ایک کالر مائیک آن کر کے شیشہ کیفے کے سیڑھیوں پرنصب گیٹ پر پہنچا، رَادھے نامی کرسچین لڑکے نے گیٹ پر روکا تو اسے یہ کہہ کر اُوپر جانے میں کامیاب ہوا کہ کیفیز پر ایک پیکج بنا رہا ہوں۔ تیسری منزل پر پہنچا تو شیشوں کا دھواں سیڑھیوں تک اور اس کی مہک ناک تک محسوس ہوئی۔

کیفے میں قدم رکھتے ہی کوئی غیر پیشہ ورانہ حرکت کئے بغیر سیدھا مینیجر کے پاس گیا، کیفے میں اس وقت 30-40 لڑکیاں اور 15-20 لڑکے موجود تھے۔ کیفے میں موجود تمام افراد کی پرائیویسی اور دفتری پالیسی کا خیال رکھا۔

مین کاؤنٹر پر موجود ویٹر سے پوچھا کہ اس کیفے کا مینیجر کون ہے؟ مینیجر یا مالک کو بلا دیں، صرف مؤقف لینا ہے، ویٹر نے پہلے کیمرے کو پیچھلے دکھیلا اور مائیک چھیننے کی کوشش کی، ویٹر نے کہا یہاں میڈیا کو اجازت نہیں ہے، میرے کیمرہ مین نے جواب دیا تو کیا شیشے کی اجازت ہے؟

میں نے ویٹر کو کہا کہ کیمرہ کو ہاتھ نہ لگائیں، ویٹر نے دھمکایا کہ کیمرہ چائیے یا نہیں (یعنی توڑ دوں!)۔ ویٹر نے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ مؤقف لینا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے شیشے پر پابندی ہے، یہ مضحر صحت بھی ہے، پولیس اور انتظامیہ بھی کارروائی نہیں کرتی؟

بعدازاں ہمیں بالکنی میں موجود ایک ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ویٹر نے کہا آپ یہاں تشریف رکھیں، میں نے جواب دیا تشریف کو چھوڑیں تو ویٹر بولا کہ مینیجر کو بلا دیتے ہیں۔

اب تک شیشہ کیفے میں موجود تقریباً تمام  افراد(گاہگ) کیمرہ کو دیکھ کر جا چکے تھے۔ تاہم تین مرکزی ملزمان جنہوں نے بعدازاں مجھے تشدد کا نشانہ بنایا انہوں نے دور اپنے ٹیبل سے کھڑے ہو کر آواز کَسی کہ ’یار پیسے دے کر پیتے ہیں کیا مسئلہ ہے‘۔

اس موقع پر ملزم سعد کیانی نے ایک بار غصے بھرے لہجے سے بوکھلا کر کہا کہ ’ہم ڈرتے نہیں ہیں کسی سے‘، میں نے اسے کہا کہ ہم تو آپ کو شوٹ(فلمبند) ہی نہیں کر رہے۔ اتنے میں میں نے ملزمان کے تاثرات بھانپتے ہوئے کیمرہ مین سے مخاطب ہو کر کہا کہ کہیں یہ اکھٹے ہو کر ہم پر حملہ نہ کر دیں، شیشہ کیفے سے نیچے جا کر گاڑی میں بیٹھتے ہیں، مینیجر وہاں مؤقف دے دے گا۔

اتنے میں بالکنی سے دوبارہ کیفے میں آئے تو ایک لڑکے نے میڈیا پر کوریج کی وجہ پوچھی، اسکو میں نے سلام کیا، ہاتھ ملاتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کیفے چلائے جا رہے ہیں۔ ملزم سعد کیانی نے کہا کہ اسکے بعد برن آؤٹ بھی جائیں نہ؟

’برن آؤٹ‘ بھی شیشہ کیفے ہے جو ایف سیون میں ہے جس کی پشت پناہی بھی ایک صحافی ہی کر رہا ہے۔ گویا میں نے اسے بلا جھجک کہہ دیا کہ اس کے بعد وہاں ہی جا رہے ہیں، جانتا ہوں کہ وہ شیشہ کیفے ایک صحافی کا ہے۔

ویٹر کو کہا کہ میں نیچے جا رہا ہوں جب مینیجر آ جائے تو بتا دینا۔ پھر مینیجر، ویٹر اور دیگر عملہ کچن کی طرف گیا اور واپس نہ آیا۔ دو سے تین منٹ کے انتظار کے بعد چھٹی حس نے کام کیا، میں نے کیمرہ مین عبدالواحد کو کہا کہ آؤ کچن میں دیکھیں، کچن میں جانے کے بعد دریافت ہوا کہ کچن میں ایک چور راستہ ہے، تیسری منزل سے لوہے کی سیڑھی نیچے اُتر رہی ہے جہاں سے کیفے انتظامیہ رفوچکر ہو چکی ہے۔ میں نے کیمرہ مین کو کہا کہ اب کوئی گاہگ موجود نہیں لہذا خالی ٹیبلوں پر موجود شیشوں کی ویڈیو بنا لو۔

کُل 8-10 منٹ کے بعد نیچے اُترا۔ جیسے ہی گراؤنڈ فلور پر موجود گیٹ سے باہر آیا تو ایک نوجوان نے کندھے پر ہاتھ رکھا، مجھے کہا کہ بات سن، میں سمجھا کہ یہ گاہک ہے اور اس نے کچھ پوچھنا ہے، اس دوران میرا کالر مائیک آن تھا جس میں اگر بھاری سانس بھی لیا جائے تو ریکارڈ ہوتی ہے، لڑکے کا نام بعد میں حسان دریافت ہوا جو اسلام آباد کی معروف بیکری  کے مالک کا بیٹا تھا۔

لڑکے نے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا کون ہو؟ میں نے جواب دیا میرا نام فرید صابری ہے، اس نے میرا نام دہرایا، میں نے مزید بتایا کہ میں ہم نیوز کا رپورٹر ہوں۔ اس نے کہا کہ ’کیا کیا ہے اندر ابھی؟‘ میں نے بتایا کہ مینیجر سے مؤقف لینا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ شیشہ کیفے چلائے جا رہے ہیں۔

آپ کون ہیں؟ مینیجر ہیں؟ میرےاستفسار پر اس نے کہا کہ ہاں میں مینیجر ہوں، کیمرہ تو اوپر لے گیا تھا؟ میں نے کہا ہاں میں ہی گیا تھا، شیشہ انتظامیہ کا مؤقف لینا تھا، حسان نے کہا کہ کیمرہ اور مائیک بند ہے؟ میں نے بتایا مائیک بند ہے کیونکہ ہینڈ مائیک واقعی  بند تھا۔ (میرے پاس ایک وائرلیس ہینڈ مائیک بھی تھا)۔

یہ کہنا تھا کہ اس لڑکے نے مائیک کھینچنے کی کوشش کی اور مجھے عقب میں کھڑی گاڑی کے بونٹ پر گِرا کر مارنا شروع کر دیا، پندرہ سے بیس  سیکنڈ سے کم وقت میں اس کے دیگر دو دوست بھی میرے طرف بھاگے، جو ساتھ ہی کہیں موجود تھے، انہوں نے بھی مجھے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

شروع میں تین سے چار لڑکوں نے مجھے مارا کیونکہ ایک پہلے سے گاڑی کی دوسری جانب کھڑا تھا۔ ان تمام لڑکوں کی جانب سے مجھے مارنے کے ساتھ ساتھ الزام لگایا جا رہا تھا کہ میں نے انہیں گالی دی ہے، جو سراسر غلط اور مجھ پر تشدد کرنے کا ایک بہانہ تھا۔

واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور مائیک کی ریکارڈنگ کے مطابق انہوں نے مجھ پر مُکوں، لَاتوں اور چاقو سے ایک منٹ اور 25 سیکنڈ تک تشدد کیا، ہر سیکنڈ میں تینوں لڑکوں کی جانب سے ایک ایک مکہ، دھکہ اور گردن کو دبوچا جا رہا تھا، اس موقع پر دیگر درجن بھر جوان بھی موجود تھے جو عینی شاہد ہیں۔

میں نے انہیں بارہا بتایا کہ میں نے کسی کو گالی نہی دی، ظاہر ہے اگر دی ہوتی تو کالر مائیک سے 15 منٹ کی مکمل ریکارڈنگ میں جہاں میری سانسیں بھی گِنی جا سکتی ہیں میں ایسا کچھ نہ کچھ تو ضرور ریکارڈ ہوتا۔

میں نے ان سے جان چھڑا کر کیفے کی سمت سے مارگلہ کے پہاڑوں کی طرف بھاگنا شروع کیا مگر اپنے ڈرائیور، گاڑی اور کیمرہ مین تک پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے پھر دبوچ لیا، انہوں نے میرے کالر سے پکڑتے ہوئے مجھے پیچھے کی طرف کھینچا اور گھسیٹتے ہوئے سامنے گھر کے مین گیٹ پر لے گئے۔ اس بار لڑکوں کی تعداد 8-10 تھی۔ حسان نے مجھ سے مائیک اور لوگو کھینچا، اسے میرے سر پر دے مارا اور سعد کیانی نے مجھ پر چاقو جبکہ انکے قریبی عزیز(ساتھی) جس کا نام مجھے معلوم نہیں نے مجھ پر لوہے کے مُکے سے وار کیا۔ اس دوران ملزمان مجھے جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے رہے، یہ سب کچھ  ریکارڈ ہوا۔

انہوں نے مجھے کم از کم 5-7 منٹ تک تشدد کا نشانہ بنایا۔ اتنے میں مارکیٹ سے ایک لمبے قد کے لڑکے نے آ کر مجھے بچایا اور گاڑی تک پہنچا کر کہا کے آپ جاؤ۔ گاڑی میں بیٹھا تو ایک پولیس اے ایس آئی گاڑی کے فرنٹ دروازے کی طرف آیا اور وہاں سے جانے کا کہنے لگا، پولیس کو دیکھ کر جو لڑکے گاڑی کی طرف لَپکے تھے وہ واپس پیچھے ہو گئے۔

اسی دوران میرے کیمرہ مین عبدالواحد کو بھی 4-5 لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور کیمرہ کھینچنے کی کوشش کرتے رہے، خیر کیمرہ مین نے گاڑی کا دروازہ کھول کر کیمرہ اندر پھینک دیا۔ یہ لڑکے جاتے جاتے ہم نیوز کا وائرلیس مائیک اور لوگو لے کر فرار ہو گئے۔

شیشہ کیفے پر پہنچنے سے قبل وفاقی پولیس کے دو اعلیٰ افسران کو اپنے پیکج سے متعلق آگاہ کر دیا تھا، لہذا پولیس تقریباً اگلے 10 منٹ میں شیشہ کیفے کے باہر تھی۔ اس سارے واقعے کے دوران شیشہ کیفے کی انتظامیہ نے تمام شیشوں اور فلیورز سمیت کوئیلوں کو بھی وہاں سے غائب کر دیا تھا۔

لڑائی کے فوراً بعد جان بچا کرگاڑی پر دو چار گَلیاں دور جا کر ڈپٹی کمشنرحمزہ شفقات، ایس پی سٹی سعد عزیز کو اطلاع دی۔ پولیس آ گئی لیکن ضلعی انتظامیہ کے متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرعمر رندھاوا (جن پر پہلے ہی میرج ہالز سے بھتہ لینے کا الزام ہے) نے مجھ سے رابطہ کرنے کے بجائے شیشہ مافیا کی انتظامیہ کو کال کی اور ان سے مسلسل رابطے میں رہے، اپنی سرپرستی میں کیفے سے تمام شیشے اور فلیورز کو کہیں اور شفٹ کرایا اور 2 گھنٹے بعد دوبارہ چیف کمشنر کے کہنے پرعمر رندھاوا پولی کلینک اسپتال پہنچے۔

2 گھنٹے میں میرا میڈیکل ہوا، تمام ہڈیاں سلامت تھیں اور حوصلہ بلند تھا۔ مجھ پر تشدد سے اسپتال اور کوہسار تھانے جانے تک تقریباً 100 کے لگ بھگ صحافی اکٹھے ہو چکے تھے۔ کچھ اسپتال آئے تو کچھ نے تھانے میں میرا انتظار کیا۔ میرے کپڑے پھٹ چکے تھے، حالت بُری تھی اورمیری دائیں آنکھ اور سیدھا پاؤں سوج چکا تھا۔

واقعہ کے بعد تھانہ کوہسار میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔ مقدمہ میں 148، 149، 382، 506 (بی) ایسی  ناقابل ضمانت دفعات لگائی گئی تھیں۔
کچھ میڈیا چینلز پر واقعہ کی خبریں چل چکی تھیں اور کالز پر کالز موصول ہو رہی تھیں۔ رات ڈیڑھ بجے کے قریب مقدمہ درج ہوا، میں گھر پہنچا تو گھر والوں کو یہی نوید سنائی۔ صبح 9 بجے تک مسلسل فون آتے رہے، نیند، درد اور تھکن سے چور اور کالز سے تنگ آ کر فون سائلنٹ پر لگایا اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق آرام کیا۔

 

16 تاریخ کو میرے ساتھ رُونما ہونے کے بعد ملک بھر کے صحافیوں اور پریس کلبز کی جانب سے مذمتی بیانات جاری ہوئے، صحافتی وٹس ایپ گروپس میں مذمتوں اور اظہار یک جہتی والے میسجز کا انبار لگ گیا۔

خیر اس واقعہ کے بعد صحافیوں کے دو گروہ کُھل کر سامنے آئے، ایک وہ جو کہتے ہیں کہ شیشے کے معاملہ کو نمایاں نہ کریں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہمارا کاروبار خراب ہو رہا ہے، دوسرے وہ جو کہتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔

تشدد سے اب تک کی کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔ تشدد کے بعد 3 گھنٹے تک ہم نیوز پر خبر نہ  چل سکی۔ تاہم بعدازاں ہم نیوز کے بیورو چیف ابراہیم راجہ اور دفتری انتظامیہ کی ہدایات پر دو دن تک ہر بلیٹن میں خبریں نشر ہوتی رہیں۔

شیشہ کے کاروبار میں ملوث نامور صحافی، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مسلسل اِن ڈائریکٹ پیغامات موصول ہو رہے ہیں کہ شیشہ کیفوں کو مت چھیڑیں۔ چند صحافیوں کے دوہرے معیار پر دکھ ہوتا ہے جب وہ مجھے فون کر کے کہتے ہیں کہ فلاں سیکٹر میں فلاں شیشہ کیفے ہمارا ہے، اِدھر مَت جانا جبکہ انکا سوشل میڈیا اکاؤنٹ دیکھو تو غیر قانونی کاموں کے خلاف سب سے بڑے مبلغ بنے پھرتے ہیں۔

یہ شیشہ مافیا اس قدر بااثر ہے کہ نشاندہی کے باوجود اب تک ان کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکی۔ ضلعی انتظامیہ ہو یا پولیس، سب کو ان کیفیز کے ایڈریس، مالکان، اور پشت پناہی کرنے والوں کا علم ہے لیکن جرأت نہیں۔ ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات اور ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین کو مسلسل شکایات کے باوجود شیشہ مافیا قانون کو جیب میں رکھتے ہوئے آئین پاکستان کا منہ چڑا رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے احکامات کو دھوئیں میں اڑا رہے ہیں۔ کچھ نے مشورہ دیا ہے کہ ٹویٹر پر شکایت کریں تو شائد شنوائی ہو؟

پولیس کی جانب سے وقوعے کے بعد 30 گھنٹے تک ملزمان کو گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ اسی رات ایک سفیر کی گاڑی کا حادثہ ہوا اور دن میں لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کی جانب سے جمعہ پڑھانے کی اطلاعات پر پولیس کی بھاری نفری وہاں تعینات تھی جس کے باعث ملزمان کو وقت ملا اور انہوں نے عبوری ضمانت کرا لی، ان کے علاوہ 2 افراد کو گرفتار کیا گیا، 4 کو طلب کیا گیا، بیان ریکارڈ کیے گئے اور باقیوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

دو مرکزی ملزمان 28 مئی تک عبوری ضمانت پر ہیں، 28 کو عدالت کی جانب سے انکی ضمانت منسوخ ہونے اور جسمانی ریمانڈ ملنے کی توقع ہے۔ پہلے میرے دوستوں اور عزیز و اقارب کے ذریعے کہا گیا کہ اللہ رسول کے لیے معاف کر دیں، بچوں سے غلطی ہو گئی، انہیں شرمندگی ہے، آپ کے پورے خاندان سے معذرت کے لیے تیار ہیں؛ میرا ایک ہی جواب رہا ہے کہ کام یزیدوں والے اور معافی اللہ رسول کے نام پر؟

مجھے مختلف ذرائع سے پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں کہ ایک بچہ اسلام آباد کی معروف بیکری کے مالک کا بیٹا  ہے تو دوسرا سابق ڈی جی ایجوکیشن کا بھانجا اور باقی اب تک نامعلوم ہیں، دو مرکزی ملزمان پہلے ہی عبوری ضمانت حاصل کر چکے ہیں، اور کہتے پھر رہے ہیں کہ کچھ نہیں ہو گا ہمارے تو جج بھی جاننے والے ہیں، انہیں معاف کر دیں تو بہتر ہے ورنہ کچھ مزید کی توقع رکھیں!

کہتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ آئین پاکستان، قانون اور عدالتوں سے انصاف کی توقع ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ قانون کی چکی پیستی آہستہ ہے لیکن پیستی بہت باریک ہے۔


متعلقہ خبریں