ایک لاکھ 30 ہزار شناختی کارڈ بلاک ہونے کا انکشاف


اسلام آباد: سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی نے بلاک شناختی کارڈ کے اعداد وشمار (ڈیٹا) طلب کرلیا ہے جن کی تعداد لاکھوں میں ہوسکتی ہے۔

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے مطابق اس وقت ملک میں ایک لاکھ تیس ہزار شناختی کارڈ بلا ک ہیں جو پہلے تین لاکھ کے قریب تھے۔

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کا اجلاس سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی صدارت میں ہوا۔

کمیٹی اجلاس میں ڈپٹی کمشنر باجوڑ عثمان محسود نے باجوڑ کے رہائشی عطاء اللہ کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کے بارے میں بتایا کہ ڈپٹی کمشنر کسی بھی شخص کا شناختی کارڈ بلاک نہیں کرسکتا کیونکہ وہ خفیہ ادارے بلاک کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے شناختی کارڈ پہلے متعلقہ افسر کی جانب سے تصدیق نہ ہونے کی وجہ سے بلاک کیے گئے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس مسئلے سے دوچار ہے۔

چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ بلاک کرتے ہوئے لوگوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس پر ڈی جی آپریشن نادرا نے بتایا کہ سات قسم کی دستاویزات دکھا کر شہریت کی تصدیق کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک لاکھ تیس ہزار شناختی کارڈ بلا ک ہیں جو تین لاکھ کے قریب تھے۔ نادرا میں اس وقت 14 کروڑ سے زائد شہری رجسٹرڈ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قائمہ کمیٹی نےنادرا قانون میں ترمیم کا بل مسترد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کھلی ہوئی سرحد کی وجہ سے کچھ  لوگوں کو مشکلات کا سامنا بھی ہے لیکن یہ تاثر درست نہیں کہ صرف قبائلی اضلاع کے لوگوں کے شناختی کارڈز بلاک کیے جاتے ہیں۔

ڈی جی آپریشن نادرا نے بتایا کہ کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں سے بھی بہت کیس ہیں جس پر سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ کسی بھی شخص کو شہریت سے محروم کرنا جرم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق نے جعلی شناختی کارڈ کا نظام متعارف کرایا اورملک بھر میں لوگوں کو اسی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے اور اس طرح انسانی حقوق کی بد ترین پامالی ہو رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر باجوڑ نے کمیٹی کو بتایا کہ ان کا مسئلہ حل اور لیٹر جاری کر دیا گیا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ.بلاک شناختی کارڈز کا ڈیٹا کمیٹی کو فراہم کیا جائے کیونکہ اس کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔

 عامر ذوالفقار نے فرشتہ قتل کیس کی تفصیلات سے کمیٹی کو آگاہ کیا

انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اسلام آباد عامر ذوالفقار نے کمیٹی کو فرشتہ کے اغوا، زیادتی اور قتل کیس کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا  کہ 15 مئی بچی  15 مئی  کو اغوا اور16 کو زیادتی کا شکار بنی جبکہ 19 مئی کو ابتدائی معلومات رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی۔

انہوں نے بتایا کہ 20 مئی رات کو گھر سے چھ سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر بچی کی نعش ملی، اتنی دورنعش کیسے پہنچی اس بارے تفتیش کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ایچ او کو بلاتاخیر خود مقدمہ درج کرنا چاہئے تھا اسی لیے انہیں عہدے سے معطل کرکے مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فرشتہ قتل کیس، گرفتار پولیس افسر کو پروٹوکول کا انکشاف

اس کیس میں ڈی ایس پی کو معطل اور ایس ایس پی کو بھی او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے جبکہ جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا ہے جس کی رپورٹ 28 مئی تک متوقع ہے۔

آئی جی نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ آیا یہ صرف قتل تھا یا زیادتی بھی ہوئی جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اس واقعہ کے بارے میں پولیس کی جانب سے کوتاہی سامنے آئی ہے، بتایا جائے ایف آئی آر درج کرانے میں تین دن کی تاخیر کیوں ہوئی؟ تھانے جانے والے لواحقین سے  وہاں  کی صفائی کرائی گئی۔

سینیٹرجہانزیب جمال دینی نے کہا کہ بدقسمتی سے پولیس اصلاحات نہیں لائی جا سکیں۔ پولیس کو اخلاقی تربیت کے حوالے سے تربیت دی جاتی ہے۔

جس پر آئی جی پولیس نے کہا کہ پولیس کی تربیت اورکام میں بڑا فرق ہے۔

متاثرہ فریق کے وکیل نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس ایچ او نے پرچہ دراج کرانے سے پہلے تفتیش شروع کی۔ اعلیٰ عدالت کے مطابق ایف آئی آر سے پہلے تفتیش مشکوک ہے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے حکومت نے 50 لاکھ کا اعلان کیا تھا مگر اب اس کوکم کر کے 20 لاکھ کر دیا گیا ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ بہت بڑا واقعہ ہے اور حکومت کا رویہ افسوس ناک ہے، جلد از جلد تحقیقات مکمل ہونی چاہئے۔

سینیٹرکامران مائیکل نے کہا کہ پولیس سمیت وزارت انسانی حقوق کو بھی بے حسی کا دامن چھوڑنا ہو گا۔

فنکشنل کمیٹی نے آئی جی اسلام آباد سے وفاقی پولیس سے تعصبات کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔

فنکشنل کمیٹی نے واقعہ کا سوموٹو نوٹس لیا اور جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ بھی طلب کی گئی۔

کمیٹی میں اسٹیٹ لائف فیلڈ ایسوسی ایشن احتجاج پر تفصیلی بحث

کمیٹی اجلاس میں اسٹیٹ لائف فیلڈ ایسوسی ایشن کے احتجاج پر تفصیلی بحث کی گئی۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیٹ لائف نے کمیٹی کو بتایا ہمارے محدود اختیارات ہیں، نجی اور سرکاری کمپنیوں کے لیے ایک ہی پالیسی ہے۔

سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ اسٹیٹ لائف پاکستان کا دوسرے اداروں سے زیادہ منافع بخش ادارہ ہے اسی لیے ایک دوسرے سے باہمی مشاورت سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔

سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ادارہ ایک ارب کے منافع میں ہے پھر بھی لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کی نجکاری کرنے جا رہی ہے اس لیے مسائل پیدا کیے جارہے ہیں کیونکہ کابینہ کا ایک فرد اسی خریدنا چاہتا ہے

کمیٹی نے اسٹیٹ لائف فیلڈ افسران کو عید کے لیے فوری ریلیف دینے کی سفارش کی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ معاملہ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں بھی اٹھایا گیا ہے اور  بتایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی میں یہ معاملہ زیر بحث ہے جس پر متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ تینوں فورم کا مشترکہ اجلاس بلا کر معاملے کا حل نکالا جائے گا۔

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر کامران مائیکل، ثنا جمالی، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی، محمد عثمان خان کاکٹر اور کیشو بائی نے شرکت کی۔

علاوہ ازیں اراکین قومی اسمبلی محسن ڈاوڑ اور علی وزیر، آئی جی اسلام آبا د پولیس عامرذوالفقار خان، ڈی جی انسانی حقوق محمد ارشد، جوائنٹ سیکرٹری وزارت انسانی حقوق ملک کامران اعظم، ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس وقار الدین، ایگزیکٹو ڈائریکٹر اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی، ڈی سی اسلام آباد، ڈی سی باجوڑ اور دیگر اعلیٰ حکام بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔


متعلقہ خبریں