’مبارک باد تو دے دی، چوکنا بھی رہنا ہوگا‘


بھارتی انتخابات میں نریندر مودی کی جیت کے بعد پاک بھارت تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے بین الاقوامی تعلقات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ مودی کی جارحانہ پالیسیوں کے باوجود پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے امکانات موجود ہیں۔

بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر طاہر ملک کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے سنجیدہ حلقوں کو یقین ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے اور بھارت کے انتہا پسند اگر چاہیں تو پاک بھارت امن قائم ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں کانگرس کی کمزور حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لا سکتی تھی۔ پاک بھارت حالیہ کشیدگی کو ختم کرنے میں بعض طاقتوں نے کر دار ادا کیا۔ اسی وجہ سے پاکستان نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو واپس بھیجا۔اس اقدام کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔

پروفیسر طاہر ملک کے مطابق پاکستان نے کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی کی۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کرتار پور راہداری سمیت اعتماد سازی کے مزید اقدامات ہونے چاہئیں، تجارت کو فروغ دینا چاہیے۔بھارت کو سفارت کاری کے ذریعے واضح پیغام دینا چاہئےکہ پاکستان امن چاہتا ہے۔

’پاکستان پر فوجی دباؤ ڈالنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے‘

سینیٹ خارجہ امور کے چئیرمین سینیٹر مشاہد حسین سید کے مطابق مودی کی واپسی ہندوستان کے لئے اور اس خطے کے لئے کشمیری عوام کے لئے بہت بری خبر ہے کیونکہ ان کی سیاست کی بنیاد تعصب اور تقسیم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹائم میگزین نے انہیں چیف ڈیوائیڈر یا اعلیٰ تقسیم کار کا خطاب دیا تھا۔ہندوستان کا معاشرہ جس میں تنوع تھا، سیکولرازم تھا لیکن اب اس کی بنیاد تعصب اور انتہا پسند ہندوتوا بن چکی ہے۔

مزید پڑھیں: بھارتی انتخابات میں مودی نے میدان مار لیا

مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع ہوں گے کیونکہ مودی کی پاکستان پر فوجی دباؤ ڈالنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے۔ پاکستان کو تنہا بھی نہیں کرسکے، پلوامہ واقعے کے بعد جارحیت کا بھارت کو منہ توڑ جواب ملا۔

انہوں نے کہا کہ مودی کے سرپرست امریکہ کی سوچ بھی پاکستان کے متعلق تبدیل ہورہی ہے، نظریہ ضرورت کے تحت امریکہ کو افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس لیے امریکہ بھی بھارت کو پاکستان سے مذاکرات کے لیے کہے گا۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ پاک بھارت مذاکرات شروع ہونے کا امکان ہے لیکن کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں۔ مودی کی اندرون بھارت مسلمان دشمنی اور خارجہ پالیسی پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔

’مبارک باد تو دے دی لیکن چوکنا بھی رہنا ہوگا‘

جنرل (ر) عبدالقیوم کہتے ہیں کہ بھارتی عوام نے اپنی خواہشات کے مطابق اپنی قیادت کو منتخب کیا تاہم پاکستان کو اپنی پالیسیاں عوامی امنگوں کے مطابق بنانی ہیں۔ ہم جمہوری عمل کو سراہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے نریندر مودی کو انتخابات جیتنے پر مبارک باد کا پیغام بھیج کر اچھا کام کیا۔ جنوبی ایشیا میں عوام کو غربت سے نکالنا ہے تو جنگی جنون سے نکلنا ہوگا لیکن بھارت کو جموں کشمیر میں مظالم روکتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حقوق دینے ہوں گے۔

جنرل ر عبدالقیوم نے کہا کہ ہمیں تحفظات بھی ہیں، مودی کا ماضی داغدار ہے، مبارک باد تو دے دی لیکن چوکنا بھی رہنا ہوگا۔

تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ نریندر مودی کے پاس پاکستان سے مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل ختم کرنے کا بہترین موقع ہے۔ پاکستان میں عمران خان حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے کالعدم تنظیموں اور ان کی فلاحی سرگرمیوں کے خلاف جو کارروائی کی وہ پاکستان کی اپنی سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال سے روکنے کے عزم کا عملی ثبوت ہے۔ پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں عالمی طاقتوں اور دوست ممالک کا کردار بھی اہم ہوگا۔


متعلقہ خبریں