تجزیہ: ایم کیو ایم پاکستان کی امیدوں پر پانی ۔۔۔۔


کچھ سال قبل تک متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم )پاکستان کراچی کی سب سے بڑی جماعت تھی ،2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف نے کراچی شہر میں سب کو حیران کرتے ہوئے  چودہ نشستیں جیت لیں اورایم کیوایم کے حصے میں صرف چار نشستیں ہی آ سکیں۔

الیکشن کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے بعض رہنماؤں  نے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا لیکن اس حوالے سے کوئی مربوط مہم نہیں چلائی۔  تجزیہ کار کہتے ہیں انتخابات سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کے قائدین کے درمیان اختلافات کے باعث پارٹی کو بہت نقصان پہنچا۔

الیکشن کے بعد ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی بنی اور محض سات سیٹوں کے عوض دو اہم وزاتوں کا قلمدان حاصل  اور قائمہ کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی ایم کیو ایم کو دی گئی۔

ایم کیو ایم کا اس وقت بھی مطالبہ ہے کے ان کو ایک وزارت اور دی جائے ۔ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان اور حکومت کے درمیان معاملات بہت اچھے چل رہے ہیں، وزیر اعظم نے ایم کیو ایم کے دونوں وزیروں کو نفیس ترین بھی قرار دیا ہے۔

کچھ عرصے قبل سے ایم کیو ایم نے اسلام آباد میں ایک خاص مہم کا آغاز کیا ، ہزاروں صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کرکے دیگر پارٹیوں کے سامنے رکھی گئی جس میں ان لوگوں کا ریکارڈ تھا جو نچلے درجوں میں کراچی میں سرکاری ملازمتیں تو کررہے ہیں مگر ان کا تعلق سندھ کے دوسرے شہروں سے ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان دیگر جماعتوں کو یہ بتارہی تھی کے کراچی کے رہنے والوں کی جگہ دیگر شہروں کے لوگوں کو نوکریاں دی جارہی ہیں۔ کراچی کے شہریوں کو پیش آنے والی مشکلات اور سندھ حکومت کی جانب سے شہر کو نظر انداز کرنےبارے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے دیگر جماعتوں کو آگاہ کیا۔

قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں ایم کیو ایم کے وفد نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کرنا تھی لیکن آئینی بل کی منظوری کی وجہ سے ملاقات اگلے سیشن تک موخر کردی گئی ۔

ایم کیو ایم پاکستان شاہ محمود قریشی سے ملک میں نئے انتظامی یونٹس کے بل کے حوالے سے مشاورت کرنا چاہ رہی تھی اور اسکی  کی تجویز تھی کہ ملک میں نئے انتظامی یونٹس کے حوالے سے لائے جانے والے بل کی موور تحریک انصاف بھی بنے۔

متحدہ کی خواہش تھی کہ ایم کیو ایم کے ساتھ تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہونے والے دو ایم این ایز عطا اللہ خان اور اکرم چیمہ کی طرف سے بل پیش کیا جائےجس میں کراچی اور اس سے ملحقہ شہروں پر مشتمل انتظامی یونٹ بنانے کا مطالبہ کیا جائے۔

تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہونے والے ایم این ایز کی اکثریت بھی اس بل کی حامی تھی اور انہوں نے خاموش رہ کر ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

جمعہ کو وزیر اعظم نے گورنر ہاوس میں بات کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کے تحریک انصاف سندھ میں ایک اور صوبہ بنانے کے خلاف ہے۔ نئے بلدیاتی نظآم سے سندھ کو کسی تقسم کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔

اس سے لگتاہے یہ ہے کے ایم کیو ایم کو پیغام دے دیا گیا ہے کے وہ انتظامی یونٹس کے حوالے سے بل کی حمایت نہیں کریں گے ، اب کیا ایم کیو ایم جنوبی پنجاب بل کی حمایت کرے گی یا نہیں اس حوالے سے کوئی  موقف سامنے نہیں آیا۔

ایم کیو ایم کا وزیراعظم کے بیان کے بعد بھی یہ فیصلہ ہے کے سندھ اسمبلی میں جنوبی صوبے سندھ کے قیام کے لئے ، جبکہ قومی اسمبلی میں انتظامی یونٹ کے قیام کے لئے بل لایا جائے گا دیکھنا یہ ہے کہ اس بل سے دونوں جماعتوں کے درمیان تلخیاں تو پیدا نہیں ہوجائیں گی؟

تحریک انصآف کے بعض رہنماؤں  کی رائے تھی کہ اگر ایم کیو ایم کے بل کی حمایت کی گئی  تو اندرون سندھ میں تحریک انصاف کو نقصان پہنچے گا اور اتحادی بھی ناراض ہوں گے۔

اس بل کی وجہ سے ایم کیو ایم لسانی بنیادوں پر ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی ، تحریک انصاف کراچی کے رہنماؤں نے وزیراعظم پر زور دیا کے اصل مسئلہ کراچی میں وسائل نہ ملنے کا ہے اگر نیا بلدیاتی نظام آجاتا ہے تو اس سے وسائل کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔

ویسے تو ایم کیو ایم پاکستان کو بھی اس بات کا پتہ ہے کے ان کا بل پاس نہیں ہوسکتا لیکن ان کی کوشش ہے کے بل لانے سے ایک تو ان کے ووٹر کو پیغام جائیگا کے وہ ان کے حقوق کے لیے کوشاں ہیں اور دوسرا ایوان کے ذریعے ہر کسی کو پتہ چلے گا کے سندھ حکومت کو جو شہر سب سے زیادہ کما کردیتا ہے اس کو کچھ نہیں دیا جارہا ہے اور گیارہ سال بعد بھی صوبائی مالیاتی کمیشن تشکیل نہیں دیاجاسکا ہے۔

پی ایس پی کے جنرل سیکرٹری رضا ہارون نے اپنے ٹوئٹ میں غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کے ”ویسے تو سندھ کی تقسیم کا باقاعدہ نعرہ نہیں لگا ہے لیکن اگر محترم وزیراعظم عمران خان ایسا بلدیاتی نظام لا سکتے ہیں جس کی وجہ سے نیا صوبہ بنانے کی ضرورت نہ رہے تو پھر پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی کیا ضرورت ہے ؟ وہاں بھی تو نیا بلدیاتی نظام حال ہی میں پاس ہوا ہے۔ نہیں؟

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما خواجہ اظہار الحسن نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے “‏اگر مان لیں کہ نیا بلدیاتی نظام آجائے اور موثر نظام رائج ہوجاتا ہے تو سندھ میں ہی نہیں پورے ملک میں کسی بھی صوبے کی ضرورت نہیں مگر سوال یہ ہے کہ نیا بلدیاتی نظام سندھ اسمبلی سے کیسے پاس ہوگا ؟ سندھ کی یہ مصنوعی اکثریت کیوں اور کیسے وزیراعظم صاحب کی بات مانے گی؟”

یہ بھی پڑھیے:تجزیہ: لڑائی کے بعد یاد آنے والا مُکا

خواجہ اظہار الحسن نے اہم نکتہ اٹھایا ہے کے جس پیپلزپارٹی سے آپ کے تعلقات اتنے خراب ہیں اس کو کس طرح سے نئے بلدیاتی نظام کو پاس کرانے کے لیے قائل کریں گے ؟
کہیں وزیراعظم نے شور شرابہ سے بچنے کے لیے مٹی ڈال کر معاملہ دبانے کی کوشش تو نہیں کی ؟؟؟


متعلقہ خبریں