تجزیہ: چیئرمین نیب کی اسموک گن

تجزیہ: چیئرمین نیب کی اسموک گن

جمعرات کی رات 9:26 منٹ پہ ایک نجی چینل پر اچانک دھماکے دار خبر سامنے آئی۔ اینکر نے کہا “چیئرمین نیب کی نگ رلیاں سامنے آ گئیں۔” چینل نے ان کی مبینہ وڈیوبھی چلائی اور آڈیوکال بھی سنا دی۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر خبر بھی واپس ہو گئی اور چینل نے معذرت بھی نشر کر دی۔ لیکن کیا یہ سب کچھ ایک دم سے ہوا؟ میری معلومات بتاتی ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

ہم نیوز نے 7 مارچ کو خبر نشر کی کہ جعلی اکائونٹس کیس میں جلد اہم گرفتاریاں شروع ہونے کو ہیں۔ اس کیس کی تحقیقات کرنے والے جس اعلی ذریعے نے یہ معلومات فراہم کی تھیں وہ مطمئن اور پریقین تھا کہ بہت جلد بڑے مگرمچھ سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اگلے ہی روز نیب نے بورڈ آف ریوینیو کے ممبر لینڈ یوٹی لائزیشن (ایل یو) آفتاب میمن کو گرفتا ر کر لیا۔ بورڈ آف ریونیو کا ممبر ایل یو زمینوں کے دھندے میں انتہائی اہم مہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہاں آنے والا افسر مبینہ طور پر بلاول ہاؤس کی منظوری سے تعینات ہوتا ہے۔

نیب کا قانون اور خصوصی رعاتیں

نیب کی روایت بتاتی ہے کہ جونہی کسی کیس کی انکوائری شروع ہوتی ہے ملزم کو حراست میں لینے کے لئے نیب پر تولنا شروع کر دیتی ہے۔ اس بارے میں کئی مثالیں موجود ہیں جن میں ڈاکٹر عاصم حسین، خواجہ سعد رفیق، شرجیل میمن، آغا سراج درانی اور کامران مائیکل کو انکوائری کے مرحلے پر ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

نیب ذرائع بتاتے ہیں کہ 50 فیصد کیسز میں سرکاری افسران بھی انکوائری کے مرحلے پر ہی حراست میں لے لئے جاتے ہیں لیکن میاں نواز شریف کو پورا ٹرائل مکمل ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا جبکہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات شروع ہوئے سال بھر سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن ان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا۔

گوسلو

پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت اور کچھ اہم حلقوں کے اس حوالے سے شدید تحفظات ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک حکومت اور اہم حلقے اس بارے میں دو مختلف آراء رکھتے ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری سے نہ صرف مبینہ طور پر لوٹا گیا پیسہ واپس لیا جائے بلکہ ان کو جیل میں بھی ڈالا جائے۔ دوسری جانب بعض فیصلہ ساز حلقے مبینہ طور پر چاہتے ہیں کہ ان شخصیات سے پیسہ لے لیا جائے اور انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی جائے۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں لیکن نیب اہم ترین نوعیت کے مقدمات کی تحقیقات انتہائی مہارت سے سست روی سے چلا رہا ہے اور ا س نے ‘گوسلو” کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس کا سارا کریڈٹ چیئرمین نیب کو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ جواب بہت سادہ ہے۔ جسٹس جاوید اقبال کی بطور چیئرمین نیب تقرری کے حوالے سے یہ بات اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ انہیں اس عہدے پر لگوانے میں آصف علی زرداری اور ملک ریاض نے نوازشریف کو تیار کیا تھا اور ان دونوں شخصیات نے میاں نواز شریف کو ہر طرح کی یقین دہانی کرائی تھی۔

چیئرمین نیب کی ویڈیواور اپوزیشن کا حیرت انگیز موقف

چیئرمین نیب کی مبینہ ویڈیو اور آڈیو منظرعام پر آنے کے بعد خیال تھا کہ پاکستانی سیاست میں ایک بھونچال آ جائے گا لیکن بھونچال تو دور کی بات حرکت بھی نہ ہوئی۔ امید کی جارہی تھی کہ اپوزیشن اس ویڈیو کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال کرے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پارٹی کے صدر شہباز شریف کا بیان سامنے آیا کہ یہ چیئرمین نیب کا ذاتی مسئلہ ہے وہ اس بارے میں زیادہ بات نہیں کریں گے۔

نون لیگ کے سینئر رہنما ملک احمد خان نے مئی 25 کو سوا بارہ بجے لاہور میں پریس کانفرنس کی اور کہا کہ چیئرمین نیب کے خلاف ان کی جماعت عدالت میں جائے گی۔ تقریبا 2 گھنٹے بعد 2:10 منٹ پر پی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگ زیب کا بیان سامنے آیا کہ ملک احمد خان کا بیان پارٹی پالیسی نہیں، یہ ان کا ذاتی بیان ہے۔ پی ایم ایل این چاہتی ہے کہ معاملے کو پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے۔

24 مئی کو سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے دلچسپ پریس کانفرنس کی جس میں وہ چیئرمین نیب کے ساتھ ہمدردی کرتے نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب چیئرمین نیب پر الزام لگا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان کو انصاف ملے۔انہوں نے مزید کہا کہ آج چیئرمین نیب کو بلیک میل کیا جا رہا ہے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ حکومت کی بدعنوانی چھپائے۔

سب سے زیادہ حیرت پاکستان پیپلزپارٹی کے موقف پر ہوئی جس نے اپنے بظاہر دشمن نمبر ون نیب کے خلاف کوئی موقف ہی نہیں دیا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پی پی پی نے چیئرمین نیب کے معاملے پر چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل آصف علی زرداری نے ایک دن پیشی پر کہا کہ وہ نیب کو تھکا دیں گے۔ یہاں ایک بات جو بہت دلچسپ ہے کہ چاہے پاکستان پیپلزپارٹی ہو یا پاکستان مسلم لیگ نواز، دونوں ہمیشہ نیب کو ہی اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ شاذونادر ہی چیئرمین نیب کے خلاف سخت جملوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

یہ تمام ہمدردیا ں اور نرمیاں اس بات کی غماز ہیں کہ چیئرمین نیب کے خلاف کوئی بھی سازش دراصل حزب اختلاف کی دو جماعتوں کے خلاف سازش ہے۔ ان کا اس سیٹ پر رہنا ان دونوں جماعتوں کے حق میں ہے۔

چیئرمین نیب کی وڈیواور آنے والی سیاست

نیب کی طرف سے متعدد بار یہ بیان دیا گیا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس اور نوازشریف سے متعلق مقدمات کو چیئرمین نیب بذات خود دیکھ رہے ہیں۔ حکومت اور فیصلہ ساز حلقوں کو ان دونوں شخصیات کے مقدمات ہی اس وقت سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ رہی سہی کسر بلاول بھٹو کی 19 مئی کی افطار نے پوری کر دی جس میں پی ٹی ایم سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ اسی افطار پارٹی میں یہ بھی طے ہوا کہ عید کے فوری بعد مولانا فضل الرحمان متحدہ اپوزیشن کی بیٹھک لگائیں گے اور حکومت کا بوریا بستر گول کرنے کے لئے حتمی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔ 23 مئی کو مولانا فضل الرحمان نے ہم نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عید کے بعد اپنے کارکنوں کے ہمراہ اسلام آباد کا رخ کریں گے۔

اب تو مریم نوازشریف بھی سیاست میں ایک بار پھر متحرک ہو رہی ہیں۔ 22 مئی کو مریم نواز پی ایم ایل این کے رہنما کے گھر ان کی زوجہ اور بیٹے کے انتقال کی تعزیت کے لئے بہاول پور پہنچیں۔ اس دوران انہوں نے وہاں خطاب بھی کیا اور وہ پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان پر کافی عرصہ بعد گرجیں اور کہا کہ ایک افطار سے حکومت کانپنے لگی ہے۔

فیصلہ ساز حلقوں کے لیے یہ بات باعث تعجب تھی کہ اتنی اہم نوعیت کی تحقیقات چل رہی ہیں اور اپوزیشن جماعتیں کسی بھی قسم کا دباؤ قبول کرنے کو تیار نہیں بلکہ الٹا حکومت گرانے کے لئے پر تول رہی ہیں۔ یہی نہیں بعض غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ بعض ممبران اسمبلی “تبدیلی” کے لئے تیار بیٹھے ہیں اور ان سے اڑان بھرنے کی بات ہو چکی ہے، صرف”دانا” ڈالنے کی دیر ہے۔

گوسلو سے فاسٹ ٹریک پر

اداروں کو لگتا ہے کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والی تحریک کو ہرصورت دبانا ضروری ہے ورنہ انسانی ریلا اگر اسلام آباد پہنچ گیا تو صورت حال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں نیب کے کیسز ہی فیصلہ سازوں کی جان خلاصی کا سبب بن سکتے ہیں لیکن نیب ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔

اہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چیئرمین نیب حال ہی میں چارج سنبھالنے والے ڈپٹی چیئرمین نیب کی تعیناتی کے خلاف تھے۔ انہوں نے تقریباً دو ماہ سے زائد عرصے تک حسین اصغر کی بطور ڈپٹی چیئرمین نیب تعیناتی کی سفارش نہیں کی۔ حسین اصغر کو مبینہ طور پر حکومت اور طاقت ور حلقوں کی کوششوں سے ڈپٹی چیئرمین نیب لگایا گیا۔ حسین اصغر گریڈ 22 سے ریٹائرڈ ہونے والے پولیس سروس آف پاکستان کے افسر ہیں۔ حسین اصغر انتہائی سادہ طبیعت کے آدمی ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انتہائی ایماندار افسر مشہور ہیں جو رکشے، ٹیکسی یہاں تک کہ بس میں بھی سفر کرنے سے نہیں شرماتے۔

ایسے حالات پیدا ہونے کا امکان موجود ہے جن کے باعث چیئرمین نیب لمبی چھٹیوں پر چلے جائیں اورحسین اصغر ایکٹنگ چیئرمین بن جائیں اور پھر عمل احتساب کو پر لگ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو شاید عید سے قبل کچھ اہم ترین گرفتاریاں ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چیئرمین نیب اپنا عہدہ چھوڑ دیں لیکن یہ دیکھنا ہو گا کہ ان دونوں صورتوں میں نیب قانون کیا کہتا ہے۔

ایک بات تو واضح ہے کہ بغیر چیئرمین نیب کے دستخط کے کوئی بھی ریفرنس کسی کے خلاف نہیں تیار ہو سکتا لیکن دو جماعتوں کے اہم ترین رہنما جیل میں ضرور جا سکتے ہیں جو کافی حد تک پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کو کسی قسم کی سیاسی مہم جوئی سے روکنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ چیئرمین نیب اپنی نشست پر براجمان رہیں لیکن پالیسی اب “گو سلو” کے بجائے “فاست ٹریک ” پر آجائے۔


متعلقہ خبریں