تبصرہ: ایک نئی مایوسی

تبصرہ: ایک نئی مایوسی

فائل فوٹو


جب کراچی پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کا قتل سامنے آیا اور منظور پشتین کی تحریک شروع ہوئی تو میں نے اس کے حق میں بہت کچھ لکھا۔ میرا خیال تھا کہ پاکستان کے مظلوموں کو ایک آواز مل گئی ہے۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ یہ تحریک قوم پرستی میں ڈھلنے لگی، پاک فوج کے خلاف نعرے بلند ہونے لگے، افغانی ہونے کا دعویٰ اس شدت سے سامنے آیا کہ شکوک پیدا ہو گئے اور اس تحریک سے مایوسی ہونے لگی۔

ہم تمام لوگوں نے شام کی تباہی کی خبریں سنی ہیں، تصاویر دیکھی ہیں اور ویڈیوز پر ماتم کیا ہے۔ لیکن کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں وقت نہیں گزارا۔ میں نے تباہ حال کابل دیکھا ہوا ہے جہاں ایک بھی گھر سلامت نہیں تھا اور کئی گھروں میں انسانی ڈھانچے پڑے ہوئے تھے۔ ایک گھر کے تہہ خانے میں چند افغانی ٹوپیاں دیکھیں جن کے ساتھ سر کے بال چمٹے ہوئے تھے۔ ایسے بے شمار منظر دل پر نقش ہیں۔

میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ کسی بھی علاقے میں خانہ جنگی کا سب سے پہلا شکار عوام ہوتے ہیں لیکن انتشار کی حالت میں طاقت اور اختیار کے جو خواہشمند ابھر کر سامنے آتے ہیں وہ بھی اسی عفریت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

احمد شاہ محسود خود کش حملے میں مارا گیا، حکمتیار کی زندگی کہیں سے بھی قابل رشک نہیں ہے۔ پاکستانی طالبان کی قیادت ہو یا افغانی طالبان، ان سب کی موت غیرفطری ہوئی ہے۔

جو گروہ پی ٹی ایم کے مطالبات کے حق میں آئین اور قانون سے دلائل لاتا ہے وہ شریف خاندان اور زرداری ہاؤس کی کرپشن پر بالکل ہی متضاد بات کرتا ہے۔ اس لیے میں نظریاتی گروہوں سے طبعاً دور رہتا ہوں کیونکہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ تباہی انہی لوگوں نے پھیلائی ہے۔

پی ٹی ایم نے جس روز اپنا قبلہ پنجاب کو چھوڑ کر فاٹا تک محدود کر دیا تھا اور اگلے مرحلے پر اپنا رخ پاکستان سے افغانستان کی طرف موڑا تھا اسی وقت ان سے مایوسی شروع ہو گئی تھی کیونکہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں صرف تباہی آنی تھی اور اس میں سب سے پہلے عام آدمی نے تکلیف سہنا تھی۔ اگرچہ بعد ازاں اس تحریک کی قیادت کا برا وقت بھی آنا ہی تھا۔

جس طرح کا اشتعال سادہ مزاج قبائیلیوں میں پھیلایا جا رہا تھا اس کے بعد فوج کے ساتھ تصادم کے لیے معمولی بہانے کی ضرورت تھی اور آج دیوار پہ لکھا سامنے آ گیا ہے۔
میں تو کشمیریوں اور فلسطینیوں کے اسلحہ اٹھانے کے بھی خلاف ہوں۔ حقوق ہوں یا مطالبات، ان کے لیے ہتھیار اٹھانے کا مطلب صرف انتشار اور تباہی ہے۔

پرامن جدوجہد سے بڑھ کر اور کوئی راستہ موجود نہیں۔ جرگہ پاکستان کی تحریک چلی تو اس لیے حمایت کی تھی کہ یہ لوگ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے قائل ہیں۔

یاد رکھیں کہ اصلاح کا نعرہ لے کر دنیا میں بے شمار لوگوں نے فساد پھیلایا ہے۔ افسوس کہ پی ٹی ایم بھی ایسا ہی ایک گروہ ہے۔

جس طرح انہوں نے پچھلے دنوں فرشتہ نامی بچی کے قتل کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اس کے بعد ان کے لیے دل میں موجود تھوڑی بہت ہمدردی بھی ختم ہو گئی تھی۔

پشتونوں نے بہت دکھ سہے ہیں، بڑی مشکل سے وہاں امن آیا تھا، اب پی ٹی ایم پھر سے تصادم کے رستے پہ چل نکلی ہے۔ افسوس کہ سابق فاٹا کے باسیوں کے دکھ ابھی ختم نہیں ہوئے۔


متعلقہ خبریں