آئی ایم ایف پروگرام پورا نہ ہو سکا تو کیا ہوگا؟


اسلام آباد: ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے اس بار بہت مشکل اہداف دیے ہیں اگر حکومت ناکام ہوئی تو برآمدات میں 23 فیصد کمی لانا پڑے گی اور شرح نمو تو بالکل ہی رک جائے گی۔

ہم نیوز کے پروگرام’بریکنگ پوائنٹ ود مالک‘ میں گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ  خسارے کو2.4 سے کم کرکے 0.6 تک لانا ناممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ کی صلاحیت  محدود ہے، حکومت ٹیکس میں 36 فیصد تک اضافہ نہیں کرسکتی۔

ماہر معاشیات نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں سات سو ارب کے نئے ٹیکسز لگائے جائیں گے اور روپے کی قدر میں بھی کمی آسکتی ہے جس کے باعث کرنٹ خسارہ مزید بڑھے گا۔

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ  حکومت کو اپنے خرچے کم کرنے پڑیں گے بصورت دیگر اہداف حاصل نہیں ہوں گے۔

‘آئی ایم ایف کے اکثر پروگرام لینے کے بعد غربت بڑھتی ہے’

سابق وزیرتجارت ہمایوں اخترخان نے کہا کہ آئی ایم ایف کے اکثر پروگرام لینے کے بعد غربت بڑھتی ہے لیکن بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوتا ہے اور یہی اس کا مثبت پہلو ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس اکٹھا کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس کے باوجود اگر حکومت اصلاحات بھی کر لے تو شرح نمو 15 فیصد بڑھ سکتی ہے۔

ہمایوں اختر خان نے کہا کہ حکومت ترقیاتی منصوبوں کا فنڈ کم نہ کرے ورنہ مزید مشکلات پیدا ہوں گے لیکن اگر نجکاری کی طرف جایا جائے تو کہیں سے پیسے آنے کا امکان ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بریکنگ پوائنٹ ودھ مالک میں نوازشریف سے جڑی کمپنی سے متعلق دلچسپ انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت 11.5 ارب کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی جبکہ موجودہ حکومت نے نو ماہ میں 2.5 سو ارب اضافہ کیا لیکن موجودہ حکومت کے  اقدمات کے نتیجے میں 2022 تک گردشی قرضہ ختم ہو جائے گا۔

‘ایف بی آر36 فیصد سے زائد ٹیکس بڑھا لے تو بڑی بات ہوگی’

سابق وزیرخزانہ  ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگر ایف بی آر36 فیصد سے زائد ٹیکس بڑھا لے تو بڑی بات ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت بڑی مشکل سے 25 فیصد بڑھا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو بھی معلوم ہے کہ حکومت پاکستان اتنا ٹیکس جمع نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت چار سو ارب پر چلتی ہے جس میں سے دو سو ارب کی تنخواہیں اور باقی دیگر اخراجات ہیں جو آپ کسی صورت کم نہیں کرسکتے۔


متعلقہ خبریں