سندھ میں ایڈز کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجز ہیں

لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کیسز کی تعداد 326 ، شکارپور میں 11ہوگئی

وزارت قومی  صحت کا کہنا ہے کہ سندھ میں ایڈز کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ استعمال شدہ سرنجز کا بار بار استعمال اور بیرون ممالک سے ایڈز کے متاثرہ لوگ ہیں جو اپنے اہل خاندان کو ایڈز کا شکار بنا رہے ہیں، سندھ واحد صوبہ ہے جہاں آٹو ڈس ایبل سرنجز کے استعمال کا قانون  پاس کیا گیاہے لیکن اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

وزارت قومی صحت کے حکام  نے یہ بات سینیٹر عتیق شیخ کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کے اجلاس میں بتائی ۔

وفاقی سیکریٹری صحت زاہد سعید نے بتایا کہ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ  سرنجز کے بار بار استعمال کی وجہ سےسندھ میں ایچ آئی وی پھیلاہے۔

سیکرٹری صحت نے کمیٹی کو بتایا کہ سندھ میں ایچ آئی وی متاثرہ بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ،یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان بچوں کےوالدین ایڈز سے متاثرہ نہیں ہیں۔

انسداد ایڈز پروگرام کے ایڈوائرز نے کمیٹی کو بتایا کہ ایڈز سے متعلق تحقیقات کے لیےعالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ٹیم ایک ہفتہ پاکستان میں قیام کریگی۔

انہوں نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں آٹو ڈس ایبل سرنجز کا قانون پاس کیا گیاہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

کمیٹی نے وزارت قومی صحت کی طرف سے دی گئی بریفنگ پر  تشویش کا اظہا رکیا ۔

اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بیرون ممالک سے آنے والے ایڈز سے متاثرہ لوگ بھی ایڈز کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔

قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ وفاق سمیت تمام صوبوں میں آٹو ڈس ایبل سرنجزکا استعمال لازمی قرار دیاجائے۔

تمام صوبوں کے وزرائے صحت کو خط لکھنے کی ہدایت  بھی کی گئی کہ تمام اسپتالوں میں آٹو ڈس ایبل سرنجز کا استعمال لازمی قرار دیا جائے۔

میاں عتیق نے تمام ایئرپورٹس اور داخلی پوائنٹس پر بیرون ملک سے ڈی پورٹ ہونے والوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی بھی ہدایت کی۔

اجلاس میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے انسداد پولیو پروگرام بابر بن عطاء اور عائشہ رضا کے درمیان سوشل میڈیا پر بحث کا تذکرہ بھی ہوا۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ پولیو کے معاملے  پرعائشہ رضا سے متعلق ٹویٹ کیے گئےاس پر قائمہ کمیٹی کے تحفظات ہیں۔بابر عطا وضاحت کریں کہ سوشل میڈیا پر اس قسم کے الفاظ کیوں استعمال کیے جا رہے ہیں؟

چیئرمین کمیٹی نے کہا ٹویٹ ٹویٹ نہ کھیلا جائے اس لیے ہم نے اس مسئلہ کو کمیٹی کےایجنڈے پر لیا ہے۔

اس پر بابر بن عطا نے کہا کہ میں نے سینیٹ کا نام کسی بھی ٹویٹ میں استعمال نہیں کیا اگر ایسا ثابت ہو تو استعفی دے دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ جس دن انکا نوٹیفکیشن ہوا اس دن مجھے ایک اخبار میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیے:ایک لاکھ 63 ہزار افراد کے ایڈز میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے، ڈاکٹر ظفر مرزا

ایک انٹرویو میں عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ بابربن عطا یونیسیف میں ایک کلرک تھا۔بابر بن عطا نے انکشاف کیا کہ 19 پولیو کیسز کے ہم نے خون کے نمونے لے کران کی تشخیص کی توثابت ہوا کہ 17 بچوں نے پولیو کے قطرے پئے ہی نہیں۔

 


متعلقہ خبریں