جواب آں غزل:سشما کی مٹھائی کا جواب قریشی کاسوہن حلوہ

جواب آں غزل:سشما کی مٹھائی کا جواب قریشی کاسوہن حلوہ

جدہ: پاکستان کے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ’جواب آں غزل‘ کے طور پر اپنی بھارتی ہم منصب سشما سوراج کو ملتانی سوہن حلوہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ وہ بھارتی وزیر خارجہ کو اپنے آبائی علاقے کی معروف سوغات ’سوہن حلوہ‘ بشکیک کانفرنس‘ کے موقع پر دیں گے جس کے لیے انہوں نے اپنے اسٹاف کو ہدایات بھی دے دی ہیں۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے اس خواہش کا اظہار سعودی عرب سے شائع ہونے والے مؤقر اخبار ’اردو نیوز جدہ‘ کو ایک ’خصوصی انٹرویو‘ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے یہ اپنی خواہش اس سوال کے جواب میں ظاہر کی کہ کیا بھارت کے لہجے میں مٹھاس لانے کے لیے اب وہ اپنی بھارتی ہم منصب سشما سوراج کو مٹھائی کے بدلے میں اپنے آبائی علاقے ملتان کا مشہور سوہن حلوہ بھیجیں گے؟

بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی ہچکچاہٹ

بھارتی وزیر خارجہ نے شنگھائی کانفرنس کے موقع پر کہا تھا کہ مخدوم شاہ محمود قریشی کڑوی باتیں کرتے ہیں اس لیے ان کے لہجے میں مٹھاس لانے کے لیے مٹھائی لائی ہوں۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے نہیں معلوم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو نئی کابینہ میں کیا ذمہ داری دی جاتی ہے؟ لیکن وہ جہاں بھی ہوئیں انہیں ملتان کا سوہن حلوہ بھیجوں گا۔ انہوں نے اخبار سے کہا کہ میں ابھی اپنے اسٹاف کو کہہ دیتا ہوں کہ بشکیک کانفرنس میں سوہن حلوے کے ڈبے لے کر جانے ہیں۔

اردو نیوز کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں انہوں نے واضح کیا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور نریندر مودی کی ملاقات سرکاری سطح پر طے نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیراعظم نے ملاقات سے کبھی انکار نہیں کیا ہے۔

مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر کسی فورم کی سائڈ لائن پر ملاقات ہوجاتی ہے تو اچھی شروعات ہوں گی، دنیا اسے سراہے گی اور عالمی برادری منا سب پیش رفت سمجھے گی لیکن ملاقات ہوگی یا نہیں؟ اس کے متعلق ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

نریندو مودی کی تقریب حلف برداری میں پاکستانی وزیرا عظم کو مدعو نہ کیے جانے کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دعوت نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمرا ن خان نے مودی کو کامیابی پر مبارکباد دی اور ٹیلی فون کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی کو بردباری کہتے ہیں جسے دنیا نے پسند کیا اور سراہا ہے۔

اردو نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے یاد دلایا کہ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو پاکستان نے رہا کیا تھا حالانکہ ملک میں ایک طبقہ اس پر تنقید کررہا تھا کیونکہ وہ اسے جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ قرار دے رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طبقے کا خیال تھا کہ سودے بازی کرنی چاہیے تھی مگر دنیا نے اس خیر سگالی کے اقدام کو پسند کیا اور مثبت انداز میں دیکھا۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم مثبت سوچ (اپروچ) کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں کیونکہ ملک کی معاشی و سماجی ترقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان تحریک انصاف تبدیلی اور بہتری لانے کے ایجنڈے کے ساتھ اقتدار میں آئی ہے اوراس کے لیے ضروری ہے کہ خطے میں امن ہو تاکہ معیشت پروان چڑھے، اداروں میں اصلاح ہو اور کرپشن کا خاتمہ ہو تاکہ عام آدمی کی زندگی میں بہتری آئے۔

پاکستانی وزیر خارجہ سے جب اس پیشن گوئی کے متعقل پوچھا گیا جس میں عمران خان نے کہا تھا کہ بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں بھارت سے بات چیت آسان ہوگی تو انہوں نے کہا کہ عمران خان نے انتخابات میں مودی کی کامیابی کی بات حالات دیکھ کر کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جس قسم کا فیڈ بیک ہمیں مل رہا تھا اس کی وجہ سے امکانات تھے کہ بی جے پی دوبارہ بر سراقتدار آئے گی اور انتخابی نتائج سے ظاہر ہوگیا کہ بی جے پی کو توقعات سے زیادہ نشستیں ملیں۔

بھارت میں کانگریس آئی تو کشمیر پر معاہدہ مشکل ہوگا،عمران خان

دلچسپ امر ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے جب یہ بات کی تھی کہ مودی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے پر بات چیت آسان ہوگی تو اس کے ردعمل میں بھارتی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر شائع کی تھی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خیال میں عمران خان نے یہ بیان دے کر ’ریورس سوئنگ‘ کی ہے جو ان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں استعمال ہو گی۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کا خیال تھا کہ بی جے پی  سخت گیر (ہارڈ لائنر) تصور کی جاتی ہے لیکن اگر وہ بیٹھ کر کوئی بات کرے گی تو آگے بڑھنے میں آسانی ہوگی۔

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مجھے یہ بات معلوم ہے کہ  کانگریس کے دور میں وزیر اعظم منموہن سنگھ چاہتے تھے کہ معاملات آگے بڑھیں لیکن ان پر اتنا دباؤ تھا کہ وہ چاہتے ہوئے بھی آگے نہیں بڑھ سکے تھے۔

آنجہانی بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی سوچ بھی مختلف تھی کیونکہ وہ مدبرانہ تھی جو نسلوں کا احاطہ کرتی ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ واجپائی کی سوچ میں وسعت و گہرائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جی جے پی فیصلہ کرے کہ واجپائی کی سوچ پر عمل درآمد کرنا ہے یا نہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ واجپائی کی حب الوطنی پر شک تو کوئی نہیں کرتا ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ ’سیاسی سوچ‘ حکومتی و سیاسی مفادات کے تابع ہوتی ہے۔


متعلقہ خبریں