کیا بی این پی اور ایم کیو ایم کے بغیر حکومت چل پائے گی؟

کیا بی این پی اور ایم کیو ایم کے بغیر حکومت چل پائے گی؟

فوٹو: ہم نیوز


اسلام آباد: پاکستان کے سینیئر صحافی محمد مالک نے بحرانوں میں گھری وفاقی حکومت کے مستقبل پر انتہائی اہم سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ کیا پاکستان تحریک انصاف بی این پی اور ایم کیو ایم کے بغیر اقتدار میں رہ پائے گی؟

سینیئر صحافی نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا موجودہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں ایک بار پھر سیاسی تاش کے پتے لگائے جارہے ہیں؟

محمد مالک نے کہا کہ اگر اتحادی پارٹیاں پیچھے ہٹتی ہیں تو حکومت کے لیے صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔

ہم نیوز کے پروگرام ’بریکنگ پوائنٹ ود مالک‘ میں حکومت کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کنور نوید جمیل، بی این پی مینگل کےثنااللہ بلوچ اور نامور صحافی فہد حسین شریک ہوئے۔

مطالبات نہیں مانے جا رہے، کنور نوید جمیل

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما کنور نوید جمیل نے کہا کہ ہم نے وزیراعظم سے کئی بار ملاقات کی ہے لیکن پارٹی کے مطالبات نہیں مانے جا رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں اگر محرومیوں کا یہی سلسلہ رہا تو ایم کیو ایم کچھ بھی سوچ سکتی ہے لیکن ہم پاکستان کو مشکلات کا شکار کرنا نہیں چاہتے اور ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا جائے گا۔

ایم کیو ایم رہنما نے کہا کہ ہمارے ساتھ صوبائی اور وفاقی حکومتیں زیادتی کر رہی ہیں، ہم حکومت کے ساتھ صرف اس لیے ہیں کہ شاید کراچی کے عوام کو کچھ سہولت مل جائے۔

کنور نوید جمیل نے کہا ہم چاہتے ہیں کراچی کو مناسب فنڈز دیے جائیں، ہمیں دفاتر میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے اور وفاق علیحدہ صوبہ بنانے میں ہماری مدد کرے گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کو کوئی ڈیڈ لائن نہیں دیں گے کیونکہ ہم بلیک میلنگ پر یقین نہیں رکھتے لیکن جب ایم کیو ایم کو محسوس ہوا کہ ہمارے مسائل حل نہیں ہو رہے تو ہم علیحدہ  ہو جائیں گے۔

’لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی ہمیں رکھنا نہیں چاہتی‘

بلوچ نیشنل پارٹی مینگل کے رہنما ثنا اللہ مینگل نے حکومت سے علیحدگی کے سوال پر کہا کہ ہم نے حکومت کو ایک سال دیا اور کسی پہلو پر حکومت سے نکلنے کی خواہش نہیں کی لیکن اب لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی ہمیں رکھنا نہیں چاہتی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ بحران حکومت نے خود پیدا کر رکھے ہیں، پی ٹی آئی کو پہلے چھ ماہ ہنی مون کی بجائے کام کرنا چاہیے تھا۔

ثنا اللہ مینگل نے مشورہ دیا کہ عمران خان کی پارٹی میں سیاسی سوچ کی کمی ہے ان کو علم ہونا چاہیے یہ صرف اسلام آباد میں حکومت نہیں کرتے،  اب بھی حکومت کو چاہیے کہ اتحادیوں کیساتھ بیٹھے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے چھ نکات میں کچھ بلوچستان کی ترقی سے متعلق ہیں اگر جون سے پہلے ایسے اشارے ملے کہ بجٹ میں ہمارے صوبے کو نظر انداز کیا ہے تو ہو سکتا ہے بی این پی بجٹ میں حکومت کو ووٹ نہ دیں۔

بی این پی رہنما نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی اور معاشی استحکام ہمارے نقاط پر عمل درآمد سے آئے گا، حکومت کو چاہیے کہ ڈندے، اور بندوق کی بجائے سیاست سے مسائل حل کرے۔

سینئر صحافی فہد حسین نے کہا کہ ایم کیو ایم اور بی این پی کے مطالبات جائز ہیں اور حکمراں جماعت اسے نظر انداز کر کے سنگین غلطی کر رہی ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں حکومت نے اپنی روش نہ بدلی تو یہ بحران مزید بڑھ جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں کبھی بھی الگ ہوسکتی ہیں اور حکومت کے پاس اتحادیوں کو روکنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا۔


متعلقہ خبریں