’آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام پاکستان کی تاریخ میں سخت ترین ’


اسلام آباد: معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام پاکستان کی تاریخ کا سخت ترین ہے، امریکہ ان مالیاتی اداروں کو استعمال کرتا ہے اور اب ہمارے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام 2013 سے 2016 تک تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کامیاب تھا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف حکام نے 2017 میں پاکستانی معیشت کی تعریف کی اور کہا کہ اب آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں لیکن چند ماہ دوبارہ کہا جانے لگا کہ اب پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا ایجنڈا سیاسی ہوتا ہے اس لیے تب دیا گیا سرٹیفکیٹ مبالغہ آرائی پر مبنی تھا جس کا مقصد تب کے حکمرانوں کو تعاون فراہم کرنا تھا۔ اگر ہماری معیشت 21 پروگراموں سے بہتر نہیں ہوئی تو اس ایک سے کیسے ہوگی۔

اشفاق حسن نے کہا کہ ڈالر ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، ہم یہ اور کما نہیں سکتے لیکن بچا ضرور سکتے ہیں کہ وہ راستے بند کردیں جہاں سے یہ ادھر ادھر نکل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب یہ حکومت آئی تو اس سے لوگوں کو توقعات تھیں اور اگر یہ بانڈز متعارف کراتی یا ترسیل زر کے لیے اقدامات کرتی تو اس کا مثبت جواب ملتا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا یہ پروگرام سخت ترین ہے، 2000 میں جب امریکی قیادت پاکستان سے ناراض تھی تو وہاں سے 32 شرائط آئی تھیں، اس بار بھی جو آئی ایم ایف کا پروگرام آیا ہے یہ اسی رویے کا عکاس ہے، سابقہ حکومت کو جو آئی ایم ایف کا پروگرام دیا گیا وہ دراصل بیل آؤٹ پیکج تھا کیونکہ امریکہ حکومت کی مدد کرنا چاہتا تھا۔

ماہر معاشیات کی رائے تھی کہ جب تک ہر شعبے کے افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیا جائے گا حکومتیں پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر بوجھ ڈالتی رہیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کا مقصد معیشت کا استحکام ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کا اہداف بڑھا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، معاشی ٹیم 5500 ارب ٹیکس اکٹھا کرنے کے معاملے پر اتفاق کرکے جرم میں حصہ دار بن گئی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور یہ معیشت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈسکاؤنٹ انڈیکس کو دیکھنا ہوتا ہے، 75 فیصد اشیاء ایسی ہیں جنہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، مواصلات کے شعبے اور گھروں کے کرائے وغیرہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ فارمولہ مغرب کے لیے ہے جہاں قرضوں پر معاملات چلتے ہیں اور جب اضافے ہوتا ہے تو اس کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ روپے کو جتنا ہم نے گرانا تھا گرا لیا ہے کہ پہلے یہ روزانہ کی بنیاد پر گررہا تھا اور حکومت کہہ رہی تھی کہ یہ مارکیٹ کی بنیاد پر ہے لیکن جیسے ہی یہ حکومتی ہدف تک پہنچا، اب رک گیا ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ نہیں ہوا تو اچانک کیا وجہ بنی۔


متعلقہ خبریں