پاکستان نے طلب سے زیادہ بجلی پیدا کرکے معیشت پر بوجھ ڈال دیا،ماہرین


اسلام آباد: توانائی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنی ساری توجہ بجلی کی پیداوار پر رکھی جبکہ تقسیم کے نظام کی بہتری کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔

پروگرام ایجنڈا پاکستان میں میزبان عامر ضیاء سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر توانائی ڈاکٹر فیاض احمد نے کہا کہ ہماری بجلی کی پیداوار پر زیادہ توجہ رہی لیکن اس کی تقسیم کا نظام درست نہیں کیا۔

ڈاکٹر فیاض احمد نے کہا کہ بجلی کا جتنا شارٹ فال تھا اب اس سے بہت زیادہ پیداوار ہوگئی ہے، ہمارے پاس چند ماہ کے علاوہ 19 ہزار میگا واٹ اضافی بجلی موجود ہوگی جس کا استعمال نہیں ہوگا لیکن اس کا خرچا برداشت کرنا ہوگا۔

ماہر توانائی سہیل بٹ نے بتایا کہ جب بھی منصوبہ بندی ہوئی پورے نظام کی نہیں ہوئی۔ سی پیک سے توانائی کے شعبے کے لیے 35 ارب ڈالر ملے ان میں سے 20 پیداوار پر اور باقی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن پر خرچ ہونے چاہیے تھے لیکن ہم نے ساری رقم پیداوار پر خرچ کی۔

ڈاکٹر فیاض احمد نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں منصوبہ بندی کی کمی کے باعث گزشتہ 15 سے 20 سالوں میں ناقص فیصلے ہوئے۔ این ٹی ڈی سی کی ذمہ داری تھی لیکن یہ کام نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو سبسڈی دپنی پڑتی ہے، اس کے علاوہ انہیں ادائیگی بھی ڈالروں میں کرنی پڑتی ہے، جب بھی روپے کی قدر گرتی ہے تو بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جو یونٹ پانچ روپے کا مل سکتا ہے وہ ہمیں 15 روپے کا مل رہا ہے۔

ڈاکٹر فیاض احمد نے بتایا کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو جب آگاہ کیا کہ چوتھے آر ایل این جی پلانٹ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارے منصوبے میں شامل نہیں ہے تو اس پر شہبازشریف نے عہدے سے الگ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ایک پلانٹ کی دوسرے کے مقابلے میں لاگت بڑھتی ہے تو نیپرا کو اس معاملے کو دیکھنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔ یہ بڑھنے سے اعلیٰ افسران کو فائدہ ہوتا ہے اور حکومتیں بھی ایسے لوگ لاتی ہیں جو من مانی کرنے کی اجازت دیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ موجودہ حکومت نے اس شعبے میں کی جانے والی کوتاہیوں سے عوام کو بہتر طور پر آگاہ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ چھوٹے چھوٹے اداروں میں فیصلوں کے بجائے فیصلہ سازی کے لیے ایک مرکزی نظام تشکیل دیا جائے۔

ڈاکٹرفیاض احمد نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم نے اس معاملے میں مدد کرنے کے بجائے مشکلات پیدا کیں، نیپرا میں کسی بھی طرح سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور اسے ہر طرح کے فیصلوں میں آزادی دی جانی چاہیے۔ بجلی کی پیداوار کے ایسے ذرائع کو استعمال میں لائیں جن سے بجلی سستی ہو۔

سہیل بٹ کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی مداخلت نے ماہرین کو اپنا کام نہیں کرنے دیا، اب ہمارے پاس لوڈشیڈنگ کم ہوگئی ہے لیکن اضافی بجلی کے استعمال کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، یہ آنے والے وقت میں بجلی پیدا کرنے والوں کو مالی مسائل سے دوچار کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ گردشی قرضے کی ماہانہ رقم 38 ارب روپے تھی جسے یہ حکومت کم کرکے 28 ارب روپے پر لے آئی ہے۔ اس شعبے میں چوری اور گیس کی لیکج کو روکنے کے لیے اچھی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

ماہر توانائی نے بتایا کہ بجلی کی عدم موجودگی نے پاکستان کے جی ڈی پی کو متاثر کیا ہے، جب ہمارے ہاں بجلی موجود نہیں تھی یا مہنگی تھی تو اس سے برآمدات بھی گر گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان وسائل کو استعمال کرنا چاہیے جن سے سستی بجلی پیدا ہو، ماضی میں فرنس آئل، درآمدی کوئلے سے زیادہ بجلی بنانے کی کوشش کی گئی جس سے یہ مہنگی ہوئی، اب یہ معاملہ درست ہورہا ہے۔

سہیل بٹ نے کہا کہ فیصلے کرنے سے پہلے دیکھنا چاہیے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے،گورننس اور انفراسٹرکچر کے نظام کو آزاد کرنا چاہیے، تعیناتیاں میرٹ پر کی جائیں اور بورڈ بنا کر انہیں اختیارات دیئے جائیں۔


متعلقہ خبریں