سارہ شگفتہ: اپنے حصے کی دھوپ سے محبوب کے کپڑے سکھانے والی شاعرہ


اسلام آباد: ’جیو اور جینے دو‘ کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دینے والے ممتاز شاعر، نقاد اور صحافی جمیل الرحمان نے ’سارہ شگفتہ‘ کو اردو اور پنجابی ادب کی ’سلویا پاتھ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ہاں! اپنے حصے کی دھوپ سے اپنے محبوب کے کپڑے سکھانے والی‘‘!

ان کا کہنا ہے کہ میں جب بھی سارہ کی کوئی نظم پڑھنا شروع کرتا ہوں، ایک انجان سا خوف ،ایک عجب طرح کا غصہ اورکسی پاتال سے گہرا کوئی دکھ مجھے یوں اپنی لپیٹ میں لینا شروع کرتا ہے کہ میری آنکھیں دھندلا جاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے کہیں میرے اندر سے آنسو اچھل کر میرے حلق میں آن اٹکے ہیں، میری سانس رکنے لگتی ہیں اور نظم اپنی ادھوری قرات کی سلاخوں سے سرٹکراتے ہوئے مجھ پر اپنے دانت نکوس کر غرانے لگتی ہے۔

گم شدہ آسمان، کرچیاں اور قطرے اور لہو کی لکیر پرسمیت متعدد کتب کے مصنف جمیل الرحمان لکھتے ہیں کہ تم نے کبھی ایسی روشنی دیکھی ہے؟ ۔جسے تم چھونا چاہتے ہو مگر وہ ایسے اوراس بھرپور انداز میں پھوٹتی ہو جیسے رنگ و نور اور تصا ویر کا کوئی سرکش دھارا، جو تمہارے پورے وجود سے ٹکرا کرتمہیں صرف اپنی شوکت اور ہونے کا احساس دلاتا ہے لیکن کچھ دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ تمہاری آنکھوں اور دل میں ادھورے منظروں اور انجان کیفیتوں کا ایک ریلہ امنڈتا ہے جو تمہیں اپنے ساتھ اس طرح بہا کر لے جاتا ہے کہ تم اسے سمجھنے کے بجائے اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے رہ جاتے ہو۔ بس! ایسا کچھ ہی میرا بھی حال ہوجاتا ہے اُسے پڑھتے ہوئے۔۔۔

چار جون کو دنیائے فانی سے رخصت ہونے والی سارہ شگفتہ کا ’تعارف‘ جمیل الرحمان نے اپنے دو ’کرداروں‘ کے درمیان ہونے والے مکالمے کی شکل میں کرایا ہے۔ اسی مکالمے کو درج بالا سطور میں رقم کیا گیا ہے۔

سارہ شگفتہ کا ایک تعارف ممتاز شاعرہ اور دنیائے علم و فن میں حسن  و عشق کی ’دیوی‘ قرار دی جانے والی امرتا پریتم نے کرایا تھا۔ انہوں نے سارہ کی ’خود کشی‘ کی خبر ملنے پر لکھا تھا کہ ’’ صاحباں! تُو نے بُرا کیا ۔ ۔ ۔ یہ الفاظ مرزا نے تب کہے تھے جب اُس کی صاحباں نے اُس کا ترکش اُس سے چھُپا کے پیڑ پر رکھ دیا تھا اور آج تڑپ کر یہی الفاظ میں کہہ رہی ہوں کہ جب سارا شگفتہ نے اپنی زندگی کا ترکش جانے آسمان کے کس پیڑ پر رکھ دیا ہے، خود بھی صاحباں کی طرح مر گئی ہے اور اپنا مرزا بھی مروا دیا ہے‘‘۔

امرتا پریتم نے لکھا تھا کہ ’’ ہر دوست مرزا ہی تو ہوتا ہے، میں کتنے دنوں سے بھری آنکھوں سے سارا کی وہ کتاب ہاتھوں میں لیے ہوئے ہوں جو میں نے ہی شایع کی تھی اور احساس ہوتا ہے کہ سارا کی نظموں کو چھُو کر کہیں سے میں اس کے بدن کو چھُو سکتی ہوں‘‘۔

پنجابی زبان کی معروف شاعرہ امرتا پریتم نے لکھا تھا کہ ’’ یہ زمین وہ زمین نہیں تھی جہاں وہ اپنا ایک گھر تعمیر کر لیتی اور اسی لیے اُس نے گھر کی جگہ ایک قبر تعمیر کر لی لیکن کہنا چاہتی ہوں کہ ’سارا‘ قبر بن سکتی ہے لیکن قبر کی خاموشی نہیں بن سکتی۔  دل والے لوگ جب بھی اس کی قبر کے پاس جائیں گے اُن کے کانوں میں سارا کی آواز سنائی دے گی‘‘۔

امرتا پریتم کا کہنا تھا کہ ’’ وہ تو ضمیر سے زیادہ ’جاگ‘ چُکی تھی اوراس دنیا میں جس کے پاس بھی ضمیر ہے اُس کے ضمیر کے کان ضرور ہوں گے اور وہ ہمیشہ اُس کی آواز سن پائیں گے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ اگر آج کا ’اتہاس‘ خاموش ہے تو آنے والے کل کا اتہاس ضرور گواہی دے گا کہ اسرار و رموز اس پر آشکار ہوئے تھے۔ آج دنیا کے ہم سب ادیبوں کے سامنے وہ کورے کاغذ بچھا گئی ہے کہ جن کے پاس سچ مچ کے قلم ہیں اُنہیں لکھنا ہوگا‘‘۔

امرتا کے مطابق ’’جب سارہ سے ملاقات ہوئی تھی تو اپنے جنم دن کی بات کرتے ہوئے اُس نے کہا تھا کہ پنچھیوں کا چہچہانا ہی میرا جنم دن ہے‘‘۔

امرتا پریتم نے سارہ شگفتہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سارا! دیکھ ! امروز نے ہمارے گھر کے آنگن کی سب سے بڑی دیوار پر چڑیوں کے سات گھونسلے بنا دیے ہیں، اب وہاں چڑیاں دانا کھانے آتی ہیں اور لکڑی کے چھوٹے چھوٹے سفید گھونسلوں میں تنکے رکھتے ہوئے  جب وہ چھوٹے چھوٹے پنکھوں سے اُڑتی، کھیلتی اور چہچہاتی ہیں تو کائنات میں یہ آواز گونج جاتی ہے کہ آج سارا کا جنم دن ہے‘‘۔

امرتا پریتم کا کہنا تھا کہ ’’ میں دُنیا والوں کی بات نہیں کرتی اُن کے ہاتھوں میں تو جانے کس کس طرح کے ہتھیار رہتے ہیں۔ میں صرف پنچھیوں کی بات کرتی ہوں اور اُن کی جن کے انسانی جسموں میں پنچھی ’روح‘ ہوتی ہے اور جب تک وہ سب اس زمین پر رہیں گے سارا کا جنم دن رہے گا‘‘۔

اردو اور پنجابی میں ’افسانوی شہرت‘ کی حامل قرار دی جانے والی امرتا پریتم کا کہنا تھا کہ’’ کم بَخت! نے خود ہی کہا تھا کہ میں نے ’پگڈنڈیوں کا پیرہن‘ پہن لیا ہے لیکن اب کس سے پُوچھوں کہ اُس نے یہ پیرہن کیوں بدل لیا ہے؟ جانتی ہوں کہ زمین کی پگڈنڈیوں کا پیرہن بہت کانٹے دار تھا اور اُس نے آسمان کی پگڈنڈیوں کا پیرہن پہن لیا لیکن۔۔۔ اور۔۔۔ اس لیکن کے آگے کوئی لفظ نہیں ہے صرف آنکھ کے آنسو ہیں‘‘۔۔۔!

سارہ شگفتہ نے ’پگڈنڈیوں کے پیراہن‘ کا تعارف خود اس طرح کرایا تھا کہ ’’آج سے پانچ برس پہلے کہنے کو ایک شاعر میرے ساتھ فیملی پلاننگ میں سروس کرتا تھا۔ میں بہت با نمازی ہوتی تھی ۔ گھر سے آفس تک کا راستہ بڑی مشکل سے یاد کیا تھا۔ لکھنے پڑھنے سے بالکل شوق نہیں تھا۔

اتنا ضرور پتہ تھا ۔ شاعر لوگ بڑے ہوتے ہیں ۔

ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے، پھرایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ تو دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔

اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا  آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے اس لیے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔

ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے، مقررہ جگہ پر پہنچی اورنکاح ہو گیا۔

قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ مٹھائی کا ڈبہ بھی منگوا لیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔

باقی جھونپڑی پہنچتے پہنچتے دو روپے بچے ۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔

شاعر نے کہا دو روپے ہوں گے باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دیے۔ پھر کہا! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔

گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی ’وحشت‘ تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی ’بھوک‘ برداشت نہ ہوتی۔

روز گھر میں ’فلسفے‘ پکتے اور ہم ’منطق‘ کھاتے۔

ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیے گئے یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گنا کرتی اور اپنے ’جہل‘ کا اکثر شکار رہتی۔

مجھے ساتواں مہینہ ہوا۔ درد شدید تھا اور بان کا درد بھی شدید تھا ۔ علم کے غرور میں وہ آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب اور درد شدید ہوا تو مالک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔

تھوڑی دیر کے بعد لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اورایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔

ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لٹا دیا۔

پانچ منٹ کے لئے بچے نے آنکھیں کھولیں اور کفن کمانے چلا گیا۔

بس! جب سے میرے جسم میں آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔ Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو علم نہیں کہ میں کہاں ہوں۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا تمہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا ڈر ہے، تم بستر پر رہو لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔

میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔

میں نے Sister سے کہا میرے لیے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں بھاگوں گی نہیں۔

تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی، گھر پہنچی۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میں نے شاعر سے کہا، لڑکا پیدا ہوا تھا  مَر گیا ہے۔

اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔

کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہو گئی !

فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟

راں بو کیا کہتا ہے ؟

سعدی نے کیا کہا ہے ؟

اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا ۔

یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا !

ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ لٹکائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہو گئے۔

میں سیڑھیوں سے ایک ’چیخ‘ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے ۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے۔ اُس نے دے دیئے  پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا !

کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟

میں نے کہا بس مجھے ذرا ا بخار ہے لیکن میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی۔ پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں  وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔

اسپتال پہنچی ، بل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔

آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں اور اس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جا رہی ہوں۔ بچے کی اصل قبر تو میرے دل میں بن چکی تھی۔

میں پھر دوہری چیخ کے ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہوئی۔

ڈاکٹر نے سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔ کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے  چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی۔

میں نے قسم کھائی کہ شعر لکھوں گی، شاعری کروں گی اور میں شاعرہ کہلاؤں گی لیکن تیسری بات جھوٹ ہے میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید! میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔

آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے ہیں۔

ﺳﺎﺭﮦ ﺷﮕﻔﺘﮧ 31 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1954 ﮐﻮ ﮔﻮﺟﺮﺍﻧﻮﺍﻟﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ہوئی تھیں۔ ﻭﮦ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﻭﺭ ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺮﺗﯽﺗﮭیں۔ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﯽ ﻣﺮﻏﻮﺏ ﺻﻨﻒ ﻧﺜﺮﯼ ﻧﻈﻢ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻟﮓ ﺍﺳﻠﻮﺏ ﺳﮯ ﻣﺮﺻﻊ ﺗﮭﯽ۔

ﺳﺎﺭﺍ ﺷﮕﻔﺘﮧ ﮐﯽ ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ‘ﺑﻠﺪﮮ ﺍﮐﮭﺮ’، ‘ﻣﯿﮟ ﻧﻨﮕﯽﭼﻨﮕﯽ’ ﺍﻭﺭ ‘ﻟﮑﻦ ﻣﯿﭩﯽ’ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺩﻭﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﮯ ﻣﺠﻤﻮﻋﮯ ‘ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ’ ﺍﻭﺭ’ﻧﯿﻨﺪ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ’ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﭘﺬﯾﺮ ﮨﻮﺋﮯ۔

چار جون 1984 کو انہوں نے کراچی میں ٹرین کے نیچے آکر خود کشی کر لی تھی۔

سارہ شگفتہ کی ناگہانی موت نے جہاں ان کی زندگی اور شاعری کو نئی جہت عطا کی تو وہیں امرتا پریتم نے ’ایک تھی سارہ‘ اورممتاز صحافی انور سن رائے نے ’ذلتوں کے اسیر‘ لکھی۔

ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﭨﯿﻠﯽ ﻭﮊﻥ ﻧﮯ ﮈﺭﺍﻣﮧ ﺳﯿﺮﯾﻞ ﻧﺎﻡ ‘ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺗﮏ ﺩﯾﻮﺍﺭ’ پیش کی تو ہندوستان میں ’سارہ کا سارا آسمان‘ پیش کیا گیا۔ اس کی ہدایت طارق حمید نے دی تھیں۔

سارہ شگفتہ کی ذاتی زندگی انتہائی مکروہ رویوں سے عبارت تھی۔ بیشک! آج کئی افراد اس کی نجی زندگی پر ’طنز‘ کے تیر برساتے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ہیں جنہوں نے اس کرب کو جھیلا ہے جس سے وہ لمحہ لمحہ گزرتی تھی۔ اسی سوچ کے پیش نظر اس کی ’آپ بیتی‘ کی ایک چھوٹی سی جھلک اوپری سطور میں پیش کی ہیں۔

بلاشبہ! سارہ شگفتہ منوں مٹی تلے مدتوں سے دفن ہے مگر بہت سے افراد یقین رکھتے ہیں کہ اس کی ’روح‘ شاید آج بھی اس دنیائے فانی کا چکر لگاتی ہے اور کسی ستم رسیدہ عورت کے جسم میں حلول کرجاتی ہے۔

کسی نے اس کے متعلق لکھا تھا کہ ’’ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽﻧﻈﻢ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﻟﻔﻆ ﻣﯿﮟﺟﺬﺑﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﯾﭗ ﺟﻼ ﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ’ﺁﺭﺗﯽ‘ ﺍﺗﺎﺭﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺁﺝ ﺍﺱﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﯾﺪﺍ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐچھ ﮐﮭﻮﺟﺘﯽ ﮨﯿﮟ‘‘۔

ﻋﺬﺭﺍﻋﺒﺎﺱ، ﮐﺸﻮﺭ ﻧﺎﮨﯿﺪ، ﻧﺴﺮﯾﻦ ﺍﻧﺠﻢ ﺑﮭﭩﯽ، ﺗﻨﻮﯾﺮ ﺍﻧﺠﻢ، ﺷﺎﺋﺴﺘﮧ ﺣﺒﯿﺐ بیشک نمایاں مقام کی حامل شاعرات ہیں مگر سارا شگفتہ ایک منفرد شناخت کی مالک ہیں۔

آج کڑوی کسیلی لیکن شاعری کو نئی جہت عطا کرنے والی سارہ شگفتہ کا دنیائے فانی سے رخصتی کا دن ہے۔ ان کے مجموعہ کلام ’آنکھیں‘ سے ایک انتخاب ذیل میں پیش ہے۔

آدھا کمرہ

اُس نے اتنی کتابیں چاٹ ڈالیں
کہ اُس کی عورت کے پیر کاغذ کی طرح ہوگئے
وہ روز کاغذ پہ اپنا چہرہ لکھتا اور گندہ ہوتا
اُس کی عورت جو خاموشی کاڑھے بیھٹی تھی
کاغذوں کے بھونکنے پر سارترکے پاس گئی
تم راں بو اور فرائڈ سے بھی مل آئے ہوکیا
سیفوإ میری سیفو میرابائی کی طرح مت بولو
میں سمجھ گئی ، اب اُس کی آنکھیں
کیٹس کی آنکھیں ہوئی جاتی ہیں
مَیں جو سوہنی کا گھڑااُٹھائے ہوئے تھی
اپنانام لیلیٰ بتاچکی تھی
میں نے کہا
لیلیٰ مجمع کی باتیں میرے سامنے مت دُہرایا کرو
تنہائی بھی کوئی چیز ہوتی ہے
شیکسپیئر کے ڈراموں سے چُن چُن کر اُس نے ٹُھمکے لگائے
مجھے تنہا دیکھ کر
سارترفرائڈ کے کمرے میں چلاگیا
وہ اپنی تھیوری سے گرگرپڑتا
میں سمجھ گی اُس کی کتاب کتنی ہے
لیکن بہرحال سارتر تھا
اور کل کومجمع میں بھی ملناتھا
مَیں نے بھیڑ کی طرف اشارہ کیا توبولا
اتنے سارے سارتروں سے مل کر تمہیں کیاکرنا ہے
اگرزیادہ ضد کرتی ہو تو اپنے، وارث شاہ،
ہیرسیال کے کمروں میں چلے چلتے ہیں
سارترسے استعارہ ملتے ہی
میں نے ایک تنقیدی نشست رکھی
میں نے آدھا کمرہ بھی بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا
سو پہلے آدھے فرائڈ کو بُلایا
پھر آدھے راں بو کو بلایا
آدھی آدھی بات پوچھنی شروع کی
جان ڈن کیا کررہاہے
سکینڈ ہینڈ شاعروں سے نجات چاہتا ہے
چوروں سے سخت نالاں ہے
دانتے اس وقت کہاں ہے
وہ جہنم سے بھی فرار ہوچکا ہے
اُس کوشبہ تھا
وہ خواجہ سرائوں سے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کرسکتا
اپنے پس منظر میں
ایک کتا مُسلسل بھونکنے کے لیے چھوڑ گیا ہے
اس کتے کی خصلت کیا ہے ؟
بیاترچے کی یاد میں بھونک رہا ہے
تمہاراتصور کیا کہتا ہے ؟
سارتروں کے تصور کے لحاظ سے
اب اُس کا رخ گوئٹے کے گھر کی طرف ہوگیا ہے
باقی آدھے کمرے میں کیا ہو رہاہے
لڑکیاں
کیا حرف چُن رہی ہیں

۔۔۔۔۔۔۔

موت کی تلاشی مت لو
۔۔۔۔۔۔۔
بادلوں میں ہی میری تو بارش مر گئی
ابھی ابھی بہت خوش لباس تھا وہ
میری خطا کر بیٹھا
کوئی جائے تو چلی جاؤں
کوئی آئے تو رُخصت ہو جاؤں
میرے ہاتھوں میں کوئی دل مر گیا ہے
موت کی تلاشی مت لو
انسان سے پہلے موت زندہ تھی
ٹوٹنے والے زمین پر رہ گئے
میں پیڑ سے گرا سایہ ہوں
آواز سے پہلے گھٹ نہیں سکتی
میری آنکھوں میں کوئی دل مر گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیلی بیٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔
تُجھے جب بھی کوئی دُکھ دے
اُس دُکھ کا نام بیٹی رکھنا
جب میرے سفید بال
تیرے گالوں پہ آن ہنسیں ، رو لینا
میرے خواب کے دکھ پہ سو لینا
جن کھیتوں کو ابھی اُگنا ہے
اُن کھیتوں میں
میں دیکھتی ہوں تیری انگیا بھی
بس پہلی بار ڈری بیٹی
مَیں کتنی بار ڈری بیٹی
ابھی پیڑوں میں چھپے تیرے کماں ہیں بیٹی
میرا جنم تو ہے بیٹی
اور تیرا جنم تیری بیٹی
تُجھے نہلانے کی خواہش میں
میری پوریں خون تھُوکتی ہیں


متعلقہ خبریں