نیب نے آصف علی زرداری کو گرفتار کرلیا


اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو گرفتار کرلیا ہے۔

ذرائع کے مطابق منگل کو آصف زرداری کا احتساب عدالت سے ریمانڈ حاصل کیا جائے گا۔ سابق صدر کو نیب راولپنڈی بیورو پہنچا دیا گیا۔

نیب راولپنڈی کے اطراف میں پولیس کی نفری تعینات ہے جبکہ اسلام آباد ٹریفک پولیس بھی پولیس کی معاونت کررہی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سابق صدر آصف زردری کا میڈیکل کرایا جائے گا جس کے لیے پمز اور پولی کلینک اسپتال کو خط لکھا گیا۔

اس حوالے سے پولی کلینک نے تین رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دے دیا جس نے سابق صدر کو میڈیکل فٹ قرار دیا ہے۔

آصف زرداری کی شوگر، بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن معمول کے مطابق ہے۔

بورڈ میں ڈاکٹر آصف عرفان میڈیکل اسپشلسٹ، ڈاکٹر احمد  اقبال کارڈلوجسٹ اور ڈاکٹر امیتاز حسن شامل تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ سے آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم زرداری ہاؤس پہنچی تھی۔

زرداری ہاؤس کے باہر میڈیا  سے بات چیت کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے ریفرنس کی تکمیل تک ضمانت دی تھی اور چیئرمین نیب کا گرفتاری کا حکم عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 4.5 ارب کی رٹ لگائی گئی تھی، نکلے صرف ڈیڑھ کروڑ روپے۔ ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کا ایگزیکٹو یا مالیاتی کھاتوں سےکوئی تعلق نہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اومنی گروپ نے تفتیش کے دوران تسلیم کیا کہ یہ جعلی اکاؤنٹس نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آصف علی زرداری نے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی اور کہا کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں۔

نیب نے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آصف علی زرداری جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں ملوث ہیں اور چیئرمین نیب نے ان کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ نے بھی ان کی عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی ہے، ڈی جی نیب راول پنڈی کی جانب سے آپ کو وارنٹ گرفتاری سے متعلق آگاہ کر رہے ہیں۔

زرداری، فریال کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد

اس سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں کی عبوری ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی۔ آصف علی زرداری اور فریال تالپور فیصلہ سننے سے قبل ہے اسلام آباد ہائیکورٹ سے واپس روانہ ہوگئے تھے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جو لگ بھگ دو گھنٹے بعد سنادیا گیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ ضمانت کی درخواست ہے اسے اپیل یا ٹرائل نہ بنایا جائے، اتنے لمبے دلائل ٹرائل میں ہی دیے جاتے ہیں۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میں صرف 20 منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لوں گا۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت نے استفسار کیا کہ آپ تو دلائل دے چکے ہیں ؟ جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ سارا دن دلائل دے چکے ہیں اب کوئی چیز رہ گئی ہے تو وہ بتائیں۔

جہانزیب بھروانہ نے مؤقف اختیار کیا کہ میں صرف 10 منٹ ہی دلائل دوں گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ساڑھے چار ارب روپے کی رقم کیا صرف اے ون اکاؤنٹس میں منتقل ہوئی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ رقم مختلف اکاؤنٹس میں منتقل ہوئی ہے اور عدالت کو اس حوالے سے فہرست بھی فراہم کر دی گئی ہے جبکہ چارج شیٹ کو ریفرنس میں تبدیل کر دیا گیا ہے مگر 28 جعلی اکاؤنٹس پر تحقیقات جاری ہیں۔

پراسیکیوٹر نیب کی جانب سے پارک لین کیس کے تذکرے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پارک لین کو چھوڑ دیں، یہ بتائیں کہ جعلی اکاؤنٹس سے کیا تعلق ہے ؟ عدالت سمجھ نہیں رہی کہ آپ کیس کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں جبکہ ہم نے اس کیس کو سننے کے لیے تمام کیس ملتوی کر دیے ہیں۔ آپ صرف ضمانت کی حد تک محدود رہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ عدالت صرف غیر معمولی حالات یا ہارڈ شپ کی صورت میں ضمانت دے سکتی ہے اور اس کیس میں کوئی خاص حالات ہیں نہ ہی ہارڈ شپ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں طے شدہ معیار کے مطابق ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

جہانزیب بھروانہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آصف زرداری کمپنی کے 25 فیصد کے شیئر ہولڈر ہیں اور اس میں ان کی فیملی کے بھی شیئرز ہیں۔ بینک افسر کرسٹوفر نے اے ون کا جعلی بینک اکاؤنٹ بغیر طریقہ کار اپنائے بند کر دیا۔

پراسیکیوٹر نیب جہانزیب بھروانہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن گزشتہ 4 سماعتوں سے چار ارب 40 کروڑ روپے کی بات کر رہی ہے تاہم آصف زرداری کا اس رقم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور زرداری گروپ کو اس میں سے صرف ڈیڑھ کروڑ روپے منتقل ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کی دستاویزات سے تصدیق ہوتی ہے کہ اے ون اومنی گروپ کا اکاؤنٹ ہے یہاں چالان میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ زرداری گروپ کو 3 کروڑ روپے منتقل ہوئے جبکہ یہ رقم بینک سے بینک کو منتقل ہوئی اور اس میں کوئی بات چھپائی نہیں گئی، آصف زرداری کو ایف آئی آر میں ملزم قرار دیا گیا اور نہ ہی ان کا کردار بتایا گیا۔

فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو دو ماہ میں تحقیقات مکمل کر کے ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اب تک ریفرنس دائر نہیں ہوا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے وقت میں توسیع کی۔ اب توسیع نہ ہونے کے بعد نیب کی تفتیش کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

آصف زرداری کے وکیل نے نیب کی کارروائی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے اس کیس میں آصف علی زرداری کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں لیکن اس کیس میں وارنٹ جاری کرنا چیئرمین نیب کا اختیار نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں آصف زرداری، فریال تالپور کی ضمانت میں 10 جون تک توسیع

گزشتہ سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہو گئے تھے اور عدالت نے تفتیشی افسر کی جانب سے مطمئن نہ کرنے پر سماعت 10 جون تک ملتوی کی تھی۔

آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے گزشتہ سماعت میں عدالت کو بتایا تھا کہ ریفرنس کی متعلقہ عدالت مچلکے جمع کرانے کا حکم دے چکی ہے۔

گزشتہ سماعت میں آصف علی زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ کیا ہمیں نیب کی دستاویزات مل سکتی ہیں ؟ ہمیں وقت دے دیں کہ ہم ریکارڈ دیکھ کر جواب الجواب دیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ کم از کم میں اپنی جانب سے سختی سے مسترد کرتا ہوں اور جو کچھ آ چکا ہے اسی کی بنیاد پر اب فیصلہ کیا جائے گا۔


متعلقہ خبریں