سینٹورس مال، صفا گولڈ اور شفا اسپتال کے خلاف سپریم کورٹ کے احکامات

سپریم کورٹ: راولپنڈی خود کش دهماکے کا ملزم عمر عدیل خان بری

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے شفا انٹرنیشنل اسپتال کی قائم تجاوزات کے خاتمے، صفا گولڈ مال کی سرکاری زمین پراسپتال تعمیر کرنے اورسینٹورس مال کی پارکنگ پر اسپتال، اسکول اور یا پھر پارک بنانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق سینٹورس مال تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے چیئرمین نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این اپچ اے)، چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور میئر اسلام پرشدید اظہار برہمی کیا اور سخت ریمارکس دیے۔

عدالت عظمیٰ نے دوران سماعت چیئرمین این ایچ اے اور چیئرمین سی ڈی اے کو آئندہ ماہ میں تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ گیارہ ہزار 500 این ایچ اے ملازمین اسلام آباد کو سہولیات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق عدالت عظمیٰ نے دوران سماعت کہا کہ صفاء گولڈ مال، اسپتال کی منظور شدہ سرکاری زمین پر ہے لہذا دوبارہ سے اسپتال بنایا جائے، سینٹورس کے قریب پارکنگ پلاٹ سرکاری ہے تو پارکنگ پلاٹ ختم کرکے اسپتال، پارک اور یا پھر اسکول بنایا جائے کیونکہ سرکاری زمین پرائیوٹ پارکنگ کے لیے مختص نہیں ہوسکتی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح احکامات دیے کہ کشمیر ہائی وے اور ایکسپریس وے کے دونوں اطراف سبزہ لگایا جائے، پورے اسلام آباد کو سرسبز بنایا جائے اور دیہی علاقوں میں نئے سیکٹر بنانے سے گریز کیا جائے۔

ہم نیوز کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ این ایچ اے تو بہت ہی کرپٹ ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے سینکڑوں لوگوں کو مارتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ناقص سامان ستعمال کرنے کی بنا پر تمام لوگوں کے مرنے کے ذمے دار چیئرمین این ایچ اے ہیں۔ انہوں نے تمام امور کا دوبارہ جائزہ لینے کی بھی ہدایت کی۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ لوگ روزانہ این ایچ اے کی نااہلی کے باعث مرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کاغذات سڑکوں سے بھرے پڑے ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان نے چیئرمین این ایچ اے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے استفسار کیا کہ کراچی اور حیدرآباد کے موٹر وے کی حالت دیکھیں اور لاہور سے اسلام آباد والا دیکھیں۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ چیئرمین این ایچ اے صاحب! تین سال سے ابھی تک آپ نے کچھ نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آفس میں بیٹھ کرکام نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ٹوپی، ٹی شرٹ، پتلون اور جوگر پہن کر باہر نکلیں اور کام کریں۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ صرف دفتروں میں بیٹھ کر کرپشن کرتے ہیں اور کام کا بولو تو سر پر سفید چادر باندھ کر آجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری زمینوں پر لوگوں نے قبضے کیے ہوئے ہیں۔

ہم نیوز کے مطابق سینٹورس مال تجاوزات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے چیئرمین سی ڈی اے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ آفس میں سوٹ پہن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  سی ڈی اے کے چیئرمین کے پاس دو عہدے ہیں، وہ  کمشنر اسلام آباد بھی ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے قائم مقام سربراہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو بلائیں نوٹس جاری کریں گے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ایک کام آپ سے ہو نہیں رہا تو دوسرا کام کیسے کریں گے؟

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پورے شہر پر سی ڈی اے کا قبضہ ہے اورشہر کی شکل ہی بدل دی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر ہدایت دی کہ ’اپارٹمنٹ والا کلچر‘ ختم کرکے گھر بنائیں۔

جسٹس گلزار احمد نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کو پشاور تک پہنچا دیا ہے کچھ دن بعد لاہور تک پہنچا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دارالحکومت کو سی ڈی اے نے کمرشل بنا دیا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے کہا کہ سی ڈی اے کو 1960 والے ماسٹر پلان کا پتہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نہ سڑکیں ہیں نہ ٹرانسپورٹ ہے ، نہ بجلی ہے اور نہ پانی ہے۔

جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پورے دارالحکومت کی بدترین حالت بنا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک جنگلا بس روڈ کے درمیان بنا کر اربوں روپے کا نقصان کر دیا ہے اور لوگ پیدل چل کے سفر کررہے ہوتے ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے سخت ریمارکس میں کہا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں نہ کوئی انڈر پاس بریج ہیں اور نہ کوئی انڈر پاس ٹرین ہے۔


متعلقہ خبریں