بجٹ اجلاس، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ

80 ہزار مستحق لوگوں کو ہر ماہ بلا سود قرضے ملیں گے

  • دفاعی بجٹ 1150 ارب روپے پر برقرار رکھا جائے گا
  • پی ایس ڈی پی کے لیے 951 ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں
  •  ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 555 ارب روپے رکھا گیا ہے


اسلام آباد: قومی اسمبلی میں نئے مالی سال 20-2019 کا 70 کھرب 36 ارب 30 کروڑ روپے کا بجٹ پیش کر دیا گیا۔ کابینہ اراکین نے رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ کیا۔

قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت شروع ہوا۔ وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں شریک تھے۔

نئے مالی سال کے بجٹ میں حکومتی اخراجات 460 ارب روپے سے کم کر کے 437 ارب روپے کر دیے گئے ہیں۔ 80 ہزار مستحق لوگوں کو ہر مہینے بلا سود قرضے دیے جائیں گے۔ دفاعی بجٹ 1150 ارب روپے پر برقرار رکھا جائے گا۔ آئندہ سال کے دوران سبسڈی کے لیے 271 ارب 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

سرکاری خدمات کے لئے 56 کھرب 7 ارب روپے سے زائد مقرر کیے گئے ہیں اور قرضوں کے سود کے لیے 28 کھرب 91 ارب 44 کروڑ 90 لاکھ کی تجویز دی گئی۔ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 35 کھرب 14 ارب 15 کروڑ 70 لاکھ دینے کی منظوری دی گئی۔ قابل تقسیم پول کے تحت پنجاب کو 16 کھرب 11 ارب 36 کروڑ 40 لاکھ روپے، سندھ کو 8 کھرب 14 ارب 91 کروڑ 60 لاکھ روپے، خیبر پختونخوا کو 5 کھرب 33 ارب 26 کروڑ 10 لاکھ روپے اور بلوچستان کو 2 کھرب 94 ارب 8 کروڑ 30 لاکھ دیے جائیں گے۔

آئندہ سال کے بجٹ میں انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور وفاقی حکومت نے زراعت کے لیے 12 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ کراچی میں وفاقی حکومت کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 45 ارب روپے مختص کیے گئے اور کوئٹہ کی ترقی کے لیے 10.4 ارب روپے کے خصوصی پیکج کا اعلان کیا گیا۔

وزیر مملکت نے کہا کہ وزیر اعظم کے 50 لاکھ گھروں سے بیرونی سرمایہ کاری آئے گی، بجٹ میں کامیاب جوان کاروبار اسکیم کے تحت 100 ارب روپے کے قرضے دیے جائیں گے اور بجلی، گیس کے لیے 40 ارب روپے کی سبسڈی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہاں 218 ارب کے پانی کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔ بجٹ میں گندم، چاول اور دیگر اجناس کے لیے 44 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں  گریڈ وائز اضافہ کیا جائے گا۔ گریڈ ایک سے 16 کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا جائے گا اور گریڈ 17 سے 20 کی تنخواہوں میں اضافہ 5 فیصد ہو گا، اسی طرح گریڈ 20 سے 22 کے افسران کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پی ایس ڈی پی کے لیے 951 ارب روپے مقرر کیے گئے ہیں جبکہ بجٹ میں 5 ہزار 550 ارب کے ٹیکس محصولات کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق ایف بی آر کا ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 555 ارب روپے رکھا گیا ہے اور متفرق ٹیکسز کا ہدف 267 ارب 20 کروڑ روپے مقرر کیا گیا ہے،

کاغذ پر کسٹم ڈیوٹی 20 سے کم کر کے 16 فیصد کر دی گئی ہے۔ ٹیکس رعایتوں میں کمی سے ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہو گا۔ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 29 فیصد برقرار رکھی گئی ہے اور پانی کے وسائل کے لیے 218 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔

نائن فائلر کے لیے جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کر دی گئی۔ نان فائلر 50 لاکھ روپے سے زائد کی جائیداد خرید سکیں گے۔ تعمیر شدہ مکان 5 سال میں فروخت کرنے پر بھی ٹیکس عائد کرنے تجویز دی گئی ہے۔

بناسپتی گھی اور تیل پر صرف فیڈرل ڈیوٹی عائد رکھی گئی ہے۔ بیجوں پر رعایت کو بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی۔ چینی پر سیلز ٹیکس 8 فیصد سے بڑھا کر 17 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی، چینی کی قیمت میں 3 روپے 65 پیسے فی کلو تک کا اضافہ ہو گا۔ سونے، چاندی، ہیرے کے زیورات پر بھی سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا۔

نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 894 ارب 50 کروڑ روپے، بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی وصولیوں کا ہدف  ایک ہزار 828 ارب 80 کروڑ روپے رکھا گیا ہے اور نجکاری پروگرام سے 150 ارب روپے حاصل ہونے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہاں کل دستیاب وسائل کا تخمینہ 7 ہزار 36 ارب 30 کروڑ روپے رکھا گیا۔

حماد اظہر نے کہا کہ بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض لیا جاتا تھا جو اب نہیں لیا جائے گا جبکہ سوات ایکسپریس وے کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔ آبی وسائل کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔

غیر ترقیاتی اخراجات کا حجم 6 ہزار 192 ارب 90 کروڑ روپے رکھا گیا ہے اور پنشن کی مد میں اخراجات کا تخمینہ 421 ارب روپے رکھا گیا جبکہ سود کی ادائیگیوں کے لیے 2 ہزار 891 ارب 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

رواں مالی سال کے بجٹ میں مشروبات پر ڈیوٹی 11 اعشاریہ 25 سے بڑھا کر 14 فیصد کر دی گئی، خوردنی تیل اور گھی پر بھی 17 فیصد ڈیوٹی عائد کی گئی، سیمنٹ پر ڈیوٹی ڈیڑھ روپے سے بڑھا کر دو روپے فی کلو کر دی گئی۔ ایل این جی پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کرنے کی تجویز دی گئی۔

ایک ہزار سی سی کی گاڑیوں پر ڈیوٹی میں ڈھائی فیصد کا اضافہ، ایک ہزار ایک سی سی سے دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر 5 فیصد ڈیوٹی،  2 ہزار سی سی سے زائد کی گاڑیوں پر ڈیوٹی ساڑھے 7 فیصد تک عائد کر دی گئی۔

تنخواہ دار طبقے پر سالانہ 6 لاکھ روپے آمدن والے پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے اور اِنکم ٹیکس پر 12 لاکھ کی حد ختم کر دی گئی۔ غیر تنخواہ دار طبقے کو سالانہ 4 لاکھ آمدن پر ٹیکس دینا ہو گا۔ کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ اِنکم ٹیکس کا ریٹ 2 سال تک 29 فیصد فکسڈ کر دیا گیا جبکہ تحائف کی وصولی کو آمدن تصور کیا جائے گا۔

نئے بجٹ میں کم سے کم تنخواہ 17 ہزار 500 روپے مقرر کر دی گئی۔ کولڈرنکس پر ڈیوٹی 13.2 فیصد کر دی گئی جبکہ جی ایس ٹی کو 17 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے۔

موبائل فونز کی درآمد پر 3 فیصد ویلیو ایڈیشن ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ اب ٹیکس ریفنڈ کا نظام بہتر بنایا جائے گا۔ ٹیکس نظام کی بہتری تک پاکستان ترقی نہیں کر سکے گا۔ حکومت نے غربت میں کمی کے لیے ایک نئی وزارت بھی قائم کر دی ہے۔

حکومت نے عمر رسیدہ افراد کے لیے احساس پروگرام شروع کیا جس میں اعزازی وظیفہ بڑھا کر 5 ہزار 5 سو روپے مقرر کیا گیا ہے، تعلیم کے فروغ کے لیے والدین کو ترغیب دی جائے گی، بچیوں کا وظیفہ 759 روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپے کر دیا گیا۔

سگریٹ پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا۔ اگلے سال سگریٹ پر 147 ارب روپے ٹیکس وصول کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ سگریٹ کے بڑے سلیب پر ٹیکس 4 ہزار 700 سے بڑھا کر 5 ہزار 200 روپے کر دیا گیا ہے۔ جو ایک ہزار سگریٹس پر وصول کیا جائے گا۔ نئے بجٹ میں سگریٹس پر تیسرا سلیب ختم کر دیا گیا۔ سگریٹس پر ضم شدہ  2 سلیب پر ٹیکس 1250 روپے لاگا کیا گیا ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ 5 سال کے اندر برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ 2 ہزار 2 سو 60 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا جبکہ بجلی کے نظام کا گردشی قرضہ 12 سو ارب روپے تک پہنچ گیا تھا اور پاکستانی روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لیے اربوں ڈالر جھونک دیے گئے، افراط زر 6 فیصد کو چھونے لگی تھی۔

رواں مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اخراجات میں کمی پر خصوصی توجہ دی جائے گی، سول اور عسکری حکام نے بجٹ میں مثالی کمی کی ہے، ملک میں بہت سے پیسے والے لوگ ٹیکس میں حصہ نہیں ڈالتے اور 31 لاکھ کمرشل صارفین میں سے صرف 14 لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔

بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کرتے رہے اور بعد ازاں اسپیکر قومی اسمبلی کے ڈائس کے سامنے آکر احتجاج کیا۔ اپوزیشن اراکین نے احتجاجاً بجٹ اجلاس کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ مظاہرین نے آئی ایم ایف بجٹ نامنظور اور گو عمران گو کے نعرے لگائے۔


متعلقہ خبریں