مصنو عی ذہانت کا کمال: کچھ پوشیدہ نہیں رہے گا سب آشکار ہوگا

مصنوی ذہانت کا کمال: کچھ پوشیدہ نہیں رہے گا سب آشکار ہوگا

بیجنگ: بچے معصوم، بھولے اور سادہ ہوتے ہیں۔ انہیں چونکہ زمانے کی ’ہوا‘ نہیں لگی ہوتی ہے اس لیے چالاکیوں اور ’منافقت‘ سے بھی پاک ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات کسی ڈر، خوف، لالچ، دہشت اور یا پھر اپنی فطری سادگی کے ہاتھوں مجبور ہوکر حقیقی جذبات کو اس حد تک بھی پوشیدہ رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ والدین اور بہن بھائی سمیت قریبی رشتہ داروں یا اساتذہ تک آگاہ نہیں ہو پاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ بعض اوقات نقصان کی صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے۔

والدین اپنے بچوں کے ’خفیہ‘ یا ’پوشیدہ‘ جذبات سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے کئی مرتبہ ماہرین نفسیات تک سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ وہ بچے کے رویے یا طور طریقوں میں ’بدلاؤ‘ محسوس کرتے ہیں لیکن اب ایسے والدین کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ چین نے ’مصنوعی ذہانت‘ کے استعمال والی ایک ایسی مشین ایجاد کرلی ہے جو بچوں کے چہرے کو ’اسکین‘ کرکے ان کے پوشیدہ جذبات سے بھی آگاہی حاصل کرلیتی ہے۔

جرمنی کے نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق چین کے ایک اسکول میں نصب مشین طلبہ کے چہرے اسکین کرکے انہیں مطلوبہ کھانا فراہم کردیتی ہے جس کے بعد خودکار نظام کینٹین کے اکاؤنٹ سے پیسے بھی لے لیتا ہے۔

اس مشین کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ طلبہ لمبی قطاروں سے محفوظ رہتے ہیں، تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اساتذہ بخوبی واقف رہتے ہیں کہ کون سا بچہ کس غذا کو ترجیح دے رہا ہے؟ اور یہ کہ کیا اس سے اس کی غذائی ضروریات پوری ہورہی ہیں یا نہیں؟

ڈی ڈبلیو کے مطابق اسکول غذا کے حوالے سے ملنے والی معلومات والدین کو بھی فراہم کرتا ہے اور ماہانہ بنیاد پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ بچے نے کس قدر پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ استعمال کیں؟

جرمنی کے نشریاتی ادارے کے مطابق چین کے شہر’ ہانگ ژو‘ کے 100 سال پرانے ہائی اسکول نمبر گیارہ کو کئی اعزاز حاصل ہیں۔ یہ اسکول ملک میں دیگر کئی اسکولوں کے لیے رول ماڈ ل کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں کے ڈائریکٹر ژانگ گوانچاؤ کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل کا ذہین اسکول قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اسکول کے ڈائریکٹر ژانگ گوانچاؤ نے بات چیت میں کہا کہ ہمیں بگ ڈیٹا، انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کا خیال طلبہ کی زندگیاں آسان بنانے اور ان میں سیکھنے کی صلاحیتیں بڑھانے کے لیے آیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کے مطابق کتابیں مستعار لینے کے لیے چہرے کا استعمال کیا جاتا ہے اور دیگر اسکولوں کی نسبت یہاں کی لائبریری ہر وقت کھلی رہتی ہے۔

اسکول کی ایک طالبہ مینگ جن یانگ کے خیال میں اسکول میں جگہ جگہ نصب کیمروں سے نگرانی کا احساس ہوتا ہے تو سیکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

جرمنی کے نشریاتی ادارے کے مطابق کمرہ جماعت (کلاس رومز) میں ایسے کیمرے نصب ہیں جو چہرے کے تاثرات کا تجزیہ کرکے اساتذہ کو بتاتے ہیں کہ طلبہ کی توجہ پڑھائی پر مرکوز ہے اور یا پھر وہ اکتاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں؟

ڈائریکٹر اسکول ژانگ گوانچاؤ کا کہنا ہے کہ ’مصنوعی ذہانت‘ کی مکمل ٹیکنالوجی آنکھوں کی حرکت، دماغ کی لہریں، چہرے کے تاثرات، توجہ اورانسانی رویے تک کو نوٹ کرتی ہے۔ وہ اساتذہ کو یہ بھی بتا دیتی ہے کہ کون سا طالبعلم یا طالبہ تاخیر سے آئی تھی؟

ماہرین کا خیال ہے کہ ابتدائی مرحلے میں اسکول تک محدود رکھی جانے والی مصنوعی ذہانت کی حامل مشین عام زندگی میں بھی استعمال کی جاسکے گی جس کی وجہ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آسانیاں پیدا ہوں گی اور مجرمان کے لیے ’جھوٹ‘ بولنا ناممکن ہوجائے گا لیکن یہ بھی طے ہے کہ پھر کچھ ’پوشیدہ‘ نہیں رہے گا سب کچھ آشکار ہوگا یعنی چہروں پر پـڑے سارے ’نقاب‘ سرک جائیں گے۔

۔۔۔ لیکن اگر سارے نقاب سرک گئے تو یہ دنیا مزید خوبصورت ہو گی اور یا پھر بہت ہی بد صورت ہو جائے گی ؟ اس ملین ڈالر سوال کا جواب ’سماجی‘ ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں