بجٹ کو عوام دوست کہنا مبالغہ آرائی لیکن اس کی سمت درست ہے، عامر ضیاء


اسلام آباد: سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کو عوام دوست کہنا مبالغہ آرائی ہے لیکن مشکل حالات میں یہ بہتر بجٹ ہے کہ اس کی سمت درست ہے۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف کے سوال کے جواب میں عامر ضیاء نے کہا کہ اس بجٹ میں ٹیکس بڑھانے کی بات کی گئی ہے۔ فوج اور سول اداروں نے غریبوں کو ریلیف اور تحفظ کے لیے قربانی دی ہے۔

تجزیہ کار جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ کوئی بھی بجٹ عوام دوست نہیں ہوتا بلکہ یہ وطن دوست ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس کا فائدہ ہوگا۔ حکومت نے مراعات یافتہ طبقات کو ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے ہدف بنایا ہے۔

تجزیہ کار عاصمہ ودود نے کہا کہ یہ بہتر بجٹ ہے کہ حکومت نے عوام پر ٹیکسوں کا کم بوجھ ڈالا ہے، یہ ملکی معاشی صورتحال کو سامنے رکھ کر بہتر بجٹ بنایا گیا ہے۔

ماہر معاشیات ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ حکومت نے اس بجٹ میں ٹیکس بڑھائے ہیں اس لیے اسے عوام دوست بجٹ نہیں قرار دیا جاسکتا۔

تجزیہ کار ابراہیم راجہ نے کہا کہ اس حکومت نے متوسط طبقے کو نچلے درجے پر دھکیل دیا ہے، عام لوگوں پر ہر شعبے میں ٹیکس لگائے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ معاشی پیداوار میں کمی کے بعد یہ حکومت سابقہ حکومتوں سے شکوے کرتی اچھی نہیں لگتی، یہ مڈل کلاس دشمن بجٹ ہے۔

وزیراعظم کے خطاب سے متعلق سوال کے جواب میں عامر ضیاء کا کہنا تھا کہ عمران خان نے جو پہلے دن سے مہم چلائی ہے یہ اسی کا تسلسل ہے، یہ ان کی سیاست کی بنیاد ہے اس لیے وہ بار بار دہراتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جو کچھ گزشتہ سالوں میں معیشت کے ساتھ ہوا اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ کرپشن، منی لانڈرنگ کے حوالے سے احتساب ہونا چاہیے۔

جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ یہ عمران خان کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ عوام نے انہیں اسی نعرے پر ووٹ دئیے ہیں اور وہ اس سے انحراف نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان آج اربوں روپے کا مقروض ہے تو کوئی تو اس کا ذمہ دار ہے۔

ڈاکٹر وقار احمد کی رائے تھی کہ احتساب کا معاملہ پہلے شروع ہوجانا چاہیے تھا لیکن جن اداروں کو ذمہ داری دی گئی ہے ان کی کیا کارکردگی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اداروں نے ان سالوں میں اپنا کام نہیں کیا ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔

عاصمہ ودود نے کہا کہ یہ عمران خان کا نعرہ تھا جس پر عوام نے انہیں اقتدار میں لایا۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنا پیغام عوام تک موثر انداز میں پہنچایا ہے۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ وزیراعظم کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ اپوزیشن لیڈر نہیں رہے۔ جب بجٹ پر اپوزیشن اور عوام تنقید کررہے تھے تو کمیشن کا اعلان تنقید سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کارکردگی نہ دکھا سکنے اور اپوزیشن کی جانب سے تحریک چلانے کے بعد دباو میں ہیں اس لیے ان کا لہجہ دھمکی آمیز تھا۔

وزیراعظم عمران خان کا اعلان کردہ کمیشن کارکردگی دکھا پائے گا یا نہیں کہ سوال کے جواب میں عامر ضیاء نے کہا کہ ہمارے ہاں ماضی میں کمیشن بنتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا، اب بھی کچھ نہیں بدلا نظام وہی ہے۔

ان کی رائے تھی کہ عمران خان اکیلے نظام سے کتنی دیر لڑ سکتے ہیں، ان کے پاس اکثریت نہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر اصلاحات کرسکیں۔ تحقیقات کرنا اور پھر اس کی بنیادوں پر عدالتوں سے سزائیں دلوائیں مشکل ہے۔

اعجاز اعوان نے کہا کہ وزیراعظم جس کمیشن کے معاملات خود دیکھیں گے اس کی اہمیت بھی ہوگی اور ادارے بھی اپنی کارکردگی دکھائیں گے۔ عمران خان کے آنے کے بعد ادارے متحرک ہوئے ہیں جن کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا تھا کہ اداروں میں صلاحیت نہ ہونے کے باعث مشکل ہے کہ اس کمیشن سے کچھ متاثر کن کارکردگی کی توقع رکھی جائے۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کس سے تحقیقات کرے گا، ان لوگوں سے جو حکومت میں بیٹھے ہیں یا ان سے جو جیلوں میں ہیں۔ اس حوالے سے عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوگا، یہ صرف توجہ ہٹانے کے لیے اعلان کیا گیا ہے۔

عاصمہ ودود نے کہا کہ اداروں کی صلاحیت کم ہے لیکن اس وقت جس طرح سے احتساب ہورہا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ کمیشن بھی کچھ نہ کچھ کام کرکے دکھائے گا۔

نیب کی جانب سے حالیہ گرفتاریوں سے متعلق عامر ضیاء نے رائے دی کہ جتنی بھی گرفتاریاں ہوئی ہیں یہ حکومتی عمل سے نہیں بلکہ عدالتی حکم کے نتیجے میں ہوئی ہیں۔

اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ گرفتاریاں پہلے ہوجانی چاہیئں تھیں کیونکہ تحقیقات مکمل ہوچکی تھیں۔ اب کیسز کے حوالے سے فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔ نیب نے گرفتاریاں قانون کے مطابق کی ہیں۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ آصف زرداری پر سنگین الزامات ہیں اور دو ماہ سے زائد عرصہ وہ ضمانت پررہے، اسی طرح حمزہ شہباز کی ضمانت میں بھی توسیع ہوتی رہی۔ بظاہر یہ گرفتاریاں حسن اتفاق ہیں لیکن ہمارے ہاں معاملات مشکوک ہوجاتے ہیں۔

عاصمہ ودود نے کہا کہ جب تک ضمانتوں میں توسیع ہوتی رہی معاملات درست تھے جیسے ہی گرفتاریاں ہوئی ہیں تو سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔


متعلقہ خبریں