گرفتاریوں کے موسم میں ایک رہائی

گرفتاریوں کے موسم میں ایک رہائی

پاکستانی میڈیا جس سیاسی لیڈر کا عموما نام نہیں لیتا گزشتہ روز جب انہیں لندن میں اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نےحراست میں لیا تو کراچی میں دکانیں تو بند نہ ہوئیں لیکن ٹی وی اسکرینز پر براہ راست ٹرانسمیشن کی دکانیں ضرور سج گئیں، تقریبا تین دہائیوں تک سندھ کے شہری علاقوں پر راج کرنے والی ایم کیوایم اور اس کے بانی الطاف حسین کی کہانی میں کئی موڑ آئے۔

حالات کی نزاکت بھانپتے ہوئے الطاف حسین 1991 میں برطانیہ چلے گئے اور وہاں خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ 1992 میں ایم کیوایم کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا اور قیادت کے خلاف بغاوت کے بعد پارٹی تقسیم ہو گئی۔ کچھ وقفہ ضرور آیا لیکن قیادت سے دوری اور اختلافات کے باوجود پارٹی کی سیاسی قوت اور شہر پر گرفت میں کمی نہ آئی ۔۔

ایم کیوایم انتخابات کے دوران سندھ کے شہری علاقوں سے فتوحات سمیٹتی رہی پھر 22 اگست 2016 کا دن آیا، بیرون ملک سے بانی ایم کیوایم کی ملک مخالف تقریر نے ایسی چنگاری بھڑکائی کہ پارٹی کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ کراچی اور حیدرآباد سے قومی اسمبلی کی پندرہ سے سولہ نشستیں لینے والی جماعت سکٹر کر چھ سیٹوں تک محدود رہ گئی، کراچی اور حیدرآباد میں سندھ اسمبلی کی سو فیصد نشتیں جیتنے والی ایم کیو ایم کو پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے ہاتھوں شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔

گرفتاری کے بارہ گھنٹے

لندن پولیس نے اپنے پہلے بیان میں گرفتار شدہ شخص کا نام ظاہر نہیں کیا، صرف اتنا بتایا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے اہلکاروں نے منگل کی صبح شمال مغربی لندن میں مقیم ساٹھ سالہ شخص کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور انھیں انٹرویو کے لیے ساتھ لے گئے اور اس معاملے کا تعلق پاکستان میں ایم کیو ایم سے متعلقہ فرد کی جانب سے کی جانے والی تقریروں سے ہے، اس کارروائی میں پاکستانی حکومت کی جانب سے ستمبر 2016 میں الطاف حسین کے خلاف ایک ریفرنس کا بھی بڑا کردار ہے جو برطانوی حکومت کو بھجوایا گیا تھا اور اس ریفرنس کے ساتھ بانی ایم کیو ایم کی اشتعال انگیز تقریر کی کاپی اورکراچی میں موجود اپنی سیاسی جماعت کے کارکنان کو تشدد اور بدامنی پر اکسانے کے شواہد بھی برطانوی حکام کو فراہم کیے گئے تھے۔

اس ریفرنس کے بھجوائے جانے کے بعد فروری 2017 میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے بانی ایم کیو ایم کے ریڈ ورانٹ جاری کرنے کی منظوری بھی دی تھی، الطاف حسین کی ایک رات لندن کے پولیس اسٹیشن میں گزری، دو رکنی قانونی ٹیم نے پولیس موجودگی میں ان سے ملاقات کی، لندن پولیس نے ٹیم کو بتایا کہ برطانوی قوانین کے مطابق ان کے موکل پر اشتعال انگیز تقاریر کا الزام ہےاور پولیس 22 اگست 2016 سے اب تک 7 مرتبہ کی گئی اشتعال انگیز تقاریر کی تحقیقات کر رہی ہے۔

صرف یہی نہیں لندن پولیس نے الطاف حسین کے گھر سے ان کی ہاتھوں کی تحریر کردہ تقاریر اور تقاریر کا آڈیو ڈیٹا بھی قبضے میں لیا ، تاہم بدھ کی دوپہر انہیں ناکافی شواہد کی بنیاد پر رابطہ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر ندیم احسان کی شخصی ضمانت پر اس بات کی تاکید کے ساتھ رہا کر دیا گیا کہ کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔

ماضی اور حال

پانچ سال پہلے جون 2014 میں پہلی بار بانی ایم کیو ایم کو حراست میں لیا گیا تو اس وقت ان سے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث ہونے اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ بعد ازاں عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات شواہد نہ ملنے پر بند کردی گئیں اور پچھلے سال منی لانڈرنگ کیس بھی ختم کر دیا گیا۔ ضبط شدہ پانچ لاکھ پاؤنڈز کی رقم بھی واپس کردی گئی لیکن اس کے بعد اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔

بانی ایم کیو ایم کی گرفتاری پر قانونی معاونت کے لئے پاکستان سے بیرسٹر فروغ نسیم پہلی دستیاب پرواز سے لندن روانہ ہو گئے تھے۔ اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے غیرملکی سفیروں سے رابطے کیے تھے اور فاروق ستار نے کارکنان کو پر امن رہنے کی ہدایت دی تھی اور اب حالت یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی پالیسی ترتیب دینے والے محمد انور اور مالی معاملات کے انچارچ طارق میر جائیدادوں کی ملیکت کے معاملات پر ان سے 35 سالہ رفاقت بھلا کر مخالفین بن چکے ہیں۔

اسی طرح تنظیمی اور سیاسی معاملات کو دیکھنے والے ندیم نصرت اور واسع جلیل بھی اختلافات کے باعث لاتعلق ہو کر امریکہ جا چکے ہیں، پاکستان میں موجود مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کی بغاوت، فاروق ستار، عامر خان اور سابق گورنر عشرت العباد کی 22 اگست کے بعد سے لاتعلقی بھی وہ غم ہے جو بانی ایم کیو ایم چاہتے ہوئے بھلا نہیں سکتے۔

اب کیا ہوگا

بانی ایم کیو ایم کے لئے پاکستان میں موجود حامیوں سے رابطے کا واحد ذریعہ سوشل میڈیا ہے لیکن کیا اس کارروائی کے ان تلخ تقاریر کا سلسلہ جاری رہ سکے گا؟ ایسا ہوا تو طے ہے کہ ان کا باب واقعی بند ہو چکا ہے ۔


متعلقہ خبریں