جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس کی سماعت


سپریم جوڈیشل کونسل میں  جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس کی سماعت کیلئے طلب کیا گیا اجلاس ختم ہوگیاہے ۔ کونسل کی طرف سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔

جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جاری سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل ریفرنسز سے متعلق حکومتی موقف سے آگاہ کیا۔

جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ پشاور سے جسٹس وقار احمد سیٹھ اور سندھ ہائیکورٹ سے جسٹس احمد علی شیخ بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔

عدالت عظمی کے رجسٹرار ارباب عارف کونسل کے سیکرٹری ہیں۔

اجلاس کی ابتدائی کارروائی میں ججز کے خلاف صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے کا جائزہ لیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ریفرنس میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ  پر انکی اہلیہ کے بیرون ملک اثاثے ظاہر نہ کرنے کا الزام ہے۔ حکومتی ریفرنس میں جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر وکلا کا احتجاج جاری ہے اور سپریم کورٹ میں مقدمات کی سماعت معمول کے مطابق جاری ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بنچ نمبر ایک سمیت دیگر بنچز میں کیسز چل رہے ہیں اور مقدمات کے وکلا کمرہ عدالتوں میں موجود ہیں۔

ادھر کراچی میں وکلا کی جانب سے عدالتوں پر تالہ بندی بھی کی گئی ہے۔وکلا ایکشن کمیٹی کے گل فراز خان خٹک نے سٹی کورٹ کا تالہ توڑ دیا ہے۔ سائلین سٹی کورٹ کے گیٹ نمبر دو سے داخل ہوگئے تالہ توڑنے پر وکلا ایکشن کمیٹی کی زبردست نعرے بازی دیکھنے میں آئی۔

پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کی کال پر کراچی میں عدالتوں کی تالہ بندی کے ساتھ ساتھ کراچی بار کی اپیل پر سٹی کورٹ میں مکمل عدالتی بائیکاٹ کیا جارہاہے۔

وکلا نے سندھ بھر کی عدالتوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں بھی ہڑتالی وکلا کی بڑی تعداد موجود ہے۔ وکلا اتحاد اور ہڑتال کے حق میں نعرے بازی کی جارہی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ میں سائلین اور پیشی کے لیے آنے والے وکلا کی تعداد انتہائی کم ہے۔

کوئٹہ میں بھی وکلا کی ہڑتال اور احتجاج جاری ہے جس کے باعث سائیلین کو پریشانی کا سامنا ہے ۔

خیبرپختونخوا میں بھی پاکستان بار کونسل کی کال پر وکلا کی طرف سے ہڑتال جاری ہے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر امان اللہ کنرانی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے بدنیتی سے کام لے کر بلوچستان سے واحد جج کے خلاف ریفرنس کیا ہے۔وکلاء برادری کا اتحاد آج اس کے آڑے آرہا ہے۔آج تمام وکلاء ایک صفحے پر ہیں،وکلاء کے دونوں بڑے گروپ کے سربراہ ہمارے ساتھ موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ بھی موجود ہیں،پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اتحاد سب دیکھ سکتے ہیں،آئین و قانون کے لیے سب اکھٹے ہیں۔آج کے بعد وکلاء احتجاجی تحریک کی قیادت امجد شاہ کو سونپتا ہوں۔

امان اللہ کنرانی نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے ایک ایکشن کمیٹی بنائی ہے ہم سب اس کے فیصلوں کے پابند ہوں گے۔پاکستان بار کونسل کے تحت تمام بار آجاتی ہیں،آج پورے پاکستان کے وکلاء نے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔پورے ملک میں عدالتیں بند ہیں اور عدالتوں میں سناٹے ہیں۔

سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ حکومت نے ریفرنس کو ڈس کلوز کیا ہے۔ایک جج کا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے۔امید ہے سپریم جوڈیشل کونسل آئین و قانون کے مطابق اس ریفرنس کو واپس کردے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کسی جج کو دبایا گیا تو پھر کوئی نہیں اٹھ سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد عدلیہ کی آزادی کے لیے ہے۔ہماری آواز کو دبایا جاتا ہے،آج آواز دبائیں گے کل آپ کو بھگتنا پڑے گا۔

احتجاجی وکلا سپریم کورٹ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں۔  وکلا نے بازوں پر سیاہ پٹی باندھ رکھی ہے اور حکومت کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر لاہور ہائیکورٹ بار میں ن لیگی ، پی ٹی آئی اور ق لیگ کے وکلا آمنے سامنے آگئے۔گزشتہ روز  لاہور بار کے جنرل ہاؤس اجلاس کے دوران سیاسی جماعتوں کے وکلا نے نعرے لگائے، لاہور بار نے ہڑتال اور احتجاج کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرلی۔

معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان سے متعلق ریفرنس ایک آئینی مسئلہ ہے،عدلیہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بہترین طریقہ عدلیہ کے فیصلوں کا احترام ہے۔

ادھر سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چودھری نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ دیا ہے۔ خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ضابطےکی کارروائی مکمل کیے بغیر سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے۔

یاد رہے  چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعیدخان  کھوسہ نے گزشتہ ہفتے لندن میں ایک تقریب کے دوران گفتگو میں کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو حکومت نہیں ہٹا سکتی، یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے۔

برطانیہ میں کیمبرج یونیورسٹی میں طلبا سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اپنے ججز پر اعتماد کریں وہ انصاف کریں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ جسٹس فائز عیسیٰ سے لندن میں جائیدادوں پر منی ٹریل طلب کریں گے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستانی عدالتوں کا مسئلہ ہے اس پر یہاں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

مزید پڑھیں: ’ججز کے خلاف ریفرنس قانون کے مطابق ہے‘

اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان میں عدالتوں میں اصلاحات لارہے ہیں جبکہ انصاف یقینی بنانا میری اولین ذمہ داری ہے۔

چیف جٹس نے کہا کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کی بہتری کے لئے ماڈل کورٹس کا قیام خوش آئند ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں برطانیہ کے برعکس عدلیہ میں ویٹو پاور کا رواج نہیں، ہم کم وسائل کے باوجود انصاف کی فراہمی کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے لیے ہمارا معاشرہ جدوجہد کررہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ کیمرج یونین کے مستقل رکن ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے طلبا کو پاکستان میں قانون سازی اور امن و امان کے حوالے سے بریفنگ بھی دی۔


متعلقہ خبریں