’حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں‘


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے باوجود ان جماعتوں میں ایک دوسرے سے متعلق تحفظات موجود ہیں۔ اس بات کا امکان نہیں کہ یہ جلد حکومت کے خلاف تحریک چلا سکیں۔

پروگرام ویوز میکرز میں نیب کی جانب سے فریال تالپور کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی کا رویہ جارحانہ ہوگا، کے سوال کے جواب میں سینئر تجزیہ کار عامر ضیاء نے کہا کہ حزب اختلاف کے حکومت کے خلاف کھل کر تحریک چلانے کے حالات نہیں ہیں، پیپلز پارٹی سندھ میں حکمران جماعت ہے وہ نہیں چاہے گی کہ نظام ختم ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو کرپشن اور جمہوریت کے معاملات الگ الگ کرنے سے فائدہ ہوگا۔

تجزیہ کار جنرل (ر) غلام مصطفٰی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ وفاق میں حکومت کے خلاف بڑی تحریک چلا سکے۔ اب تک حزب اختلاف اپنی طاقت کا اچھی طرح مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اسمبلی میں اچھا شور کرسکتے ہیں لیکن عوام کو مہنگائی کے علاوہ کسی معاملے پر باہر نکالنا مشکل ہے۔

تجزیہ کار ابراہیم راجہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا موقع ضائع کرچکی ہے۔ جب مسلم لیگ ن کی قیادت مشکلات کا شکار تھی تب پیپلز پارٹی نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی اگر تحریک چلتی ہے تو یہ تاثر جائے گا کہ یہ خود کو بچانے کے لیے ہے۔ نیب نے اگر بلاول بھٹو کو گرفتار کرلیا تو بات تحریک کی طرف بڑھ سکتی ہے۔

تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن حکومت کو پریشان کرسکتی ہے اور بجٹ اجلاس میں ٹف ٹائم بھی دے گی۔ نیب کا کردار انتہائی اہم ہے کہ لوگ الزامات کے بعد تحقیقات میں بچ جاتے ہیں۔

تجزیہ کار عاصمہ ودود کی رائے تھی کہ پیپلز پارٹی کو اب کارکنوں کی ضرورت ہے جنہیں انہوں نے سالوں نظر انداز کیے رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ کارکنان اب دور ہوچکے ہیں۔ پیپلز پارٹی خواہش کے باوجود بھی ابھی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کے متحد ہونے کے حوالے سے عامر ضیاء نے اپنے تجزیے میں کہا کہ اپوزیشن میں قربتیں بڑھ رہی ہیں لیکن یہ اتحاد تک نہیں جائیں گی۔ دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے سے متعلق تحفظات رکھتی ہیں اور ان کے مفادات بھی الگ الگ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ساتھ چلیں گے لیکن مضبوط اتحاد قائم ہونے میں ابھی وقت ہے۔

غلام مصطفٰی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اگر حکومت نہیں گرائیں گی تو احتجاج کس بات کا ہوگا۔ اپوزیشن کی تحریک بیانات کی حد تک ہی ہوگی۔

کامران یوسف نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے ابھی اپنے اکٹھے ہونے کا مقصد طے نہیں کیا ہے۔ بڑی جماعتیں ابھی حکومت کے خاتمے کے بارے میں نہیں سوچ رہی ہیں۔ مسائل ایسے ہیں کہ کوئی بھی جماعت ابھی حکومت نہیں گرانا چاہتی۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی گرفتاریوں کا نقصان مسلم لیگ ن کو بھی ہورہا ہے کہ انہیں گرفتاریوں کی مذمت کرنی پڑ رہی ہے۔ اس سے ایسا تاثر جائے گا کہ یہ دونوں جماعتیں ایک ہی ہیں۔

عاصمہ ودود کی رائے تھی کہ دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے کیونکہ ان کے مسائل اور مفادات الگ الگ ہیں۔

عامر ضیاء نے روپے کی قدر میں کمی کے حوالے سے کہا کہ ملک کے معاشی حالات خراب ہیں جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈالر کماتے کم اور خرچ زیادہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے لیے روپے کی قدر کم کرنا ضروری تھا یہ آئی ایم ایف کہے یا ایسا مارکیٹ کی وجہ سے کرے۔

کامران یوسف نے کہا کہ ملک میں روپے کی قدر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے کم ہورہی ہے۔ حکومت کا اس معاملے میں کردار غیرذمہ دارانہ ہے جس سے مارکیٹ میں افواہوں کو مزید تقویت مل رہی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت اگر یہ فیصلے چند افراد کے ہاتھ میں دے گی تو وہ ڈالر کی قیمت کو نہیں سنبھال سکے گی۔

غلام مصطفی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی کمزور معاشی حالت کے باعث آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننی پڑی ہیں، امریکی دباو کی وجہ سے ان مشکلات میں اضافہ بھی ہوگا۔ پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ کسی بھی بحران سے خود ہی نمٹ لے۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ان کے نمائندوں نے کیے ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے یہ اختیار دیا۔ انہوں نے پاکستان کو قرضہ دیا ہے تو یہ شرائط تو پاکستان کو ماننی ہی ہوں گی۔

عاصمہ ودود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں طلب اور رسد کی وجہ سے مارکیٹ میں اتار چڑھاو آتا ہے، حکومت کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے کہ اگر یہ اوپر جارہا ہے تو نیچے کیوں نہیں آرہا ہے۔

پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے حوالے سے عامر ضیاء نے کہا کہ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کی وجہ پاکستان نہیں ہے بلکہ ایسا بھارت کی وجہ سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت پاکستان کو اس لیے اپنا دشمن سمجھتا ہے کہ پاکستان بھارتی عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستان نہ خطے میں بھارتی بالادستی کو تسلیم کرے گا اور نہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر آگے بڑھے گا۔

غلام مصطفی نے رائے دی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہوسکتی ہے ختم نہیں ہوسکتی کیونکہ بھارت پاکستان کو اپنے عزائم کے راستے میں ایک اہم رکاوٹ سمجھتا ہے۔

کامران یوسف کا کہنا تھا کہ بھارت اس وقت پاکستان کے ساتھ بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ پاکستان کو اس وقت ساری توجہ اپنے حالات بہتر کرنے پر دینی چاہیے جس سے ہم مضبوط ہوں گے اور بھارت سمیت سب ہی بات سنیں گے۔

ابراہیم راجہ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مزید کشیدگی میں اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ بھارت نے پہلے سیاسی مقاصد کے تحت ایسا کیا تھا۔

عاصمہ ودود کا کہنا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ایسے نہیں ہیں کہ جلد امن قائم ہو لیکن اس بات کا بھی امکان کم ہے کہ اب مزید کشیدگی بڑھے۔


متعلقہ خبریں