بچوں کے ’ڈائپرز‘ کی گونج امریکی کانگریس میں ۔۔۔ لیکن کیوں؟

بچوں کے ’ڈائپرز‘ کی گونج امریکی کانگریس میں ۔۔۔ لیکن کیوں؟

اسلام آباد : موجودہ مہنگائی کے دور میں ماں باپ کے لیے جہاں ماہانہ راشن خریدنا، بلوں و اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کرنا اور دیگر ضروری گھریلو امور کی انجام دہی مشکل تر ہوچکی ہے وہیں ان کے لیے نومولود بچے کے ’ڈائپرز‘ کی خریداری بھی ایک ’مسئلہ‘ بن گئی ہے جس کی بڑی وجہ اس کی ’قیمتیں ہیں‘ جو متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کے لیے ’ناقابل‘ برداشت ہوچکی ہیں۔

۔۔۔ لیکن ڈائپرز کی ’قیمتیں‘ صرف پاکستانی والدین کو متاثر نہیں کررہی ہیں بلکہ ان کی زد میں دنیا کے ترقی یافتہ ترین کہلائے جانے والے ملک ’امریکہ‘ کے والدین بھی آگئے ہیں جس کی وجہ سے امریکی کانگریس میں بچوں کے ڈائپر کے لیے باقاعدہ بل بھی پیش کرنا پڑ گیا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکہ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق خارجہ، دفاع اور معیشت جیسے امور پر غور کرنے والی کانگریس کے اراکین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ متاثرہ ماؤں اور دیگر سماجی تنظیموں نے ’کیپیٹل ہل‘ کا رخ کیا ہے اور پیش کردہ بل کی حمایت پہ اراکین کو آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

وی او اے کی رپورٹ کے مطابق ایک متاثرہ ماں ایملی نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ڈائپرز کی قیمتوں کا یہ عالم ہے کہ اسے یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ بچے کے لیے ڈائپرز خریدے یا گھر کے لیے کھانے پینے کی اشیا خریدے اور یا پھر بلوں کی ادائیگی کرے۔

ایملی ان ماؤں میں سے ہے جو باقاعدہ خود بھی ملازمت کرتی ہیں۔ بحیثیت پراپرٹی مشیر کام کرنے والی ’ماں‘ کیپیٹل ہل، ایڈوکیسی گروپ کے ہمراہ کیپیٹل ہل پہنچی ہے۔

وی او اے کی رپورٹ کے مطابق ’نیشنل ڈائپرز بینک ایسوسی ایشن‘ کے مطابق امریکہ میں ہر تین میں سے ایک بچے کا خاندان ڈائپر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے۔ ایک نومولود بچے کو دن میں کم از کم 12 ڈائپرز درکار ہوتے ہیں جب کہ تھوڑے بڑے بچے کے لیے آٹھ ڈائپرز کی ضرورت ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق بظاہر یہ معمولی سے ڈائپرزہیں لیکن ماؤں کو امریکہ میں 100 سے 120 ڈالرز ان پر خرچ کرنا پڑتے ہیں جو سالانہ ڈیڑھ ہزار ڈالرز بنتے ہیں ۔ موجودہ مہنگائی کے دور میں متوسط طبقے اورکم آمدنی والے خاندانوں کے لیے یہ ایک خطیر رقم ہے جس کا انتظام کرنا متاثرہ خاندانوں کے لیے از حد مشکل ہے۔

وی او اے کے مطابق امریکہ میں ایسے ’غیر منافع‘ بخش ادارے ہیں جو متاثرہ ماؤں کا بوجھ کم کرنے کے لیے ’مفت ڈائپرز‘ مہیا کرتے ہیں حالانکہ امریکہ کے لیے مشہور ہے وہاں کہا جاتا ہے کہ ’’دنیا میں کوئی کسی کو مفت کھانا بھی نہیں کھلاتا ہے‘‘۔

امریکی کانگریس کی عمارت سے کچھ  فاٖصلے پر  ’ہورٹن کڈز‘ نامی ادارے کی عمارت واقع ہے جہاں سے متاثرہ والدین اپنے بچوں کے لیے مفت ڈائپرز حاصل کر لیتے ہیں۔

اس ادارے میں آنے والی مائیں کہتی ہیں کہ انہیں اس سے بہت مدد ملتی ہے۔ ان کے خیال میں یہ ادارہ ان والدین کے لیے بھی بہت معاون و مددگار ہے جو نئے ماں باپ بنے ہیں اور ان کے پاس بچے کے لیے ڈائپرز خریدنے کے پیسے نہیں ہیں۔

امریکی کانگریس میں متعارف کرایا جانے والا بل ’این ڈائپر ایکٹ‘ 100 ملین ڈالرز مالیت کا پروگرام ہے جس کے تحت ملک بھر کے مستحق اور کم آمدنی والے خاندانوں میں ’مفت ڈائپرز‘ تقسیم کیے جائیں گے۔

ڈیمو کریٹک پارٹی کی رکن کانگریس روزا دلورو اس بل کو متعارف کرانے والوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کم آمدنی والے والدین اپنے بچوں کے لیے ڈائپرز لے سکیں کیونکہ یہ بہت اہم ہے۔

وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق بیشک! ری پبلکن اور ڈیموکریٹس ایک دوسرے کے مخالف ہیں لیکن اس بل کو منظور کرانے والوں کو یقین ہے کہ اس مسئلے پر دونوں جماعتوں کے اراکین کانگریس رضامند ہوجائیں گے اور انہیں بل منظور کرانے میں زیادہ مشکلات درپیش نہیں آئیں گی کیونکہ یہ مشترکہ مسئلہ ہے۔

امریکی کانگریس کے اراکین اور وہاں موجود دیگر سیاسی جماعتیں و سماجی تنظیمیں ’ڈائپرز‘ کی ہوشربا قمیتوں سے متاثرہ خاندانوں کا دکھ درد محسوس کرکے متحرک ہوئے ہیں اور عوامی مسئلے کو اجاگر کررہے ہیں تو کیا پاکستان میں جمہوریت اور انسانیت کا ’راگ‘ الاپنے والے سیاستدان بھی عوامی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس کرکے کوئی بل متعارف کرانے کی کوشش کریں گے؟


متعلقہ خبریں