پاک بھارت ٹاکرا سنسنی، تبصرہ اور اعداد و شمار


وہ گھڑی آن پہنچی جس کا سب ہی کو انتظار تھا۔ دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا میچ، پاک بھارت ٹاکرا  جی ہاں سولہ جون دوہزار انیس، یہ تاریخ یا تو پاکستان کے لیے امر ہوگی یا پھر ہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی تاریخ بھارت کے حق میں دہرائی جائیگی۔

نہ صرف مانچسٹر بلکہ لاہور ہو یا دہلی، کراچی اور ممبٔی یا دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے شائقین کرکٹ کی زبان پر ایک ہی بات ہے کہ کون مارے گا یہ معرکہ؟

اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میچ کے لیے چار لاکھ سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں مگر پچیس ہزار خوش قسمت ہی اسٹیڈیم میں بیٹھ کر اپنی اپنی ٹیم کو سپورٹ کرسکیں گے۔

ایک اندازے کے مطابق دوہزار پندرہ کے پاک بھارت ٹاکرے کو ریکارڈ بیس کروڑ اٹھاسی لاکھ شائقین نے دیکھا ، دو ہزار گیارہ کے میگا ایونٹ میں یہ تعداد دس کروڑ پنتیس لاکھ تھی، تاہم دوہزار سولہ کے ورلڈ ٹی ٹونٹی میں روایتی حریفوں کے درمیان کھیلے گئے میچ کو آٹھ کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔

جیت پر کہیں پٹاخے پھوڑے جاتے ہیں تو کہیں مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں،دعائیں اور پوجا پاٹ بھی عام بات ہے۔

ٹی وی کمرشل کی صورت میں دونوں ملکوں میں بننے والے اشتہارات بھی میچ کی سنسنی میں اضافہ کرتے ہیں۔  جیسا کہ انڈیا میں بننے والا ایڈ موقع موقع ہو یا پھر پاکستان میں بننے والا ابھی نندن کپ، دونوں ہی کو پزیرائی کے ساتھ تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

پاک بھارت میچ کے موقع پر گرین اور بلیو شرٹس کی فروخت بھی بڑھ جاتی ہے، گھروں میں خاص محفل سجائی جاتی ہے، گلی کوچوں بازاروں، ریسٹورنٹس اور سینما گھروں میں بڑی سکرینیں نصب کی جاتی ہیں ۔

یہ تو بات ہوگئی سنسنی اور شائقین کرکٹ کی دلچسپی کی، اب کچھ بات ہو جائے دونوں ٹیموں کے ایک دوسرے کیخلاف ریکارڈ کی۔

ون ڈے مقابلوں مں گرین شرٹس کا پلڑا بھاری ہے، شاہینوں نے بھارتی سورماؤں کے ساتھ کھیلے گئے ایک سو اکتیس میچوں میں 73 میں فتح سمیٹی اور 54 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔4 میچ بغیر کسی تنیجے کے ختم ہوئے ۔

بات کی جائے ورلڈکپ مقابلوں کی تو یہاں بھارت پاکستان سے آگے ہے ۔ روایتی حریف 6 بار آمنے سامنے آئے اور بدقسمتی سے گرین شرٹس کو ہار کا ہی منہ دیکھنا پڑا ۔

دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے حالیہ چار میچوں میں بھارت نے تین میں کامیابی سمیٹی اور پاکستان ایک میچ جیت سکا مگر یہ میچ آئی سی سی چمپئنز ٹرافی دوہزار سترہ کا فائنل تھا جس میں قومی ٹیم کے بلے بازوں نے بھارتی سورماوں کی خوب درگت بنائی ۔

یہ فتح رنز کے اعتبار سے بھی ریکارڈ یافتہ تھی کیونکہ بھارت کی ٹیم تین سو انتالیس رنز کے تعاقب میں صرف ایک سو اٹھاون رنز پرڈھیر ہوئی اور یوں گرین شرٹس نے ایک سو اسی رنز کے بڑے مارجن سے ٹرافی اپنے نام کرلی۔

روایتی حریفوں کے درمیان بائی لیٹرل سیریز میں بھی پاکستان آگے ہے ۔ دونوں کے درمیان کھیلی گئی سترہ سیریز میں شاہینوں نے گیارہ میں کامیابی سمیٹی صرف پانچ سیریزیں بھارت جیت سکا ایک سیریز بغیر کسی نتیجے کے برابر رہی ۔

انفرادی سکور کی بات کریں تو سابق ٹیسٹ کرکٹر سچن ٹنڈولکر نے بھارت کی طرف سے سب سے زیادہ دو ہزار پانچ سو چھبیس رنز سکور کیے۔ پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر اور موجودہ چیف سیلکٹر انضمام الحق نے دوہزار چار سو تین رنز بنائے ہیں ۔

قومی ٹیم کی موجودہ ٹیم میں شعیب ملک ہی وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے بھارت کیخلاف رنز کے انبار لگائے ہیں ۔ اب تک اکتالیس میچز میں آل راؤنڈر نے ایک ہزار سات سو بیاسی رنز بنائے جس میں چار سنچریاں شامل ہیں۔ ایک سو تینتالیس ان کا سب سے بڑا اسکور جو انہوں پریماداسا اسٹیڈیم سری لنکا میں بنایا تھا۔

ویسے تو ابھی سعید انور کے پاس اب بھی سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلنے کا اعزاز ہے ۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر نے ایم اے چدمبرام اسٹیڈیم میں ایک سو چورانوے رنز سکور کیے ۔

بھارتی کپتان ویرات کوہلی نے ایک سو تراسی رنز کی بڑی اننگ کھیل رکھی ہے جو انہوں نے شیربنگلہ اسٹیڈیم بنگلہ دیش میں کھیلی تھی۔

بیٹنگ کے برعکس باؤلنگ میں پاکستان کو برتری حاصل ہے۔ ماضی کے بڑے کپتان اور فاسٹ بالر عمران خان، وسیم اکرم ، وقار یونس، شعیب اختر سمیت کئی بالرز اپنی تیزرفتار اور سوئنگ باؤلنگ سے بھارتی بلے بازوں کو مشکل میں ڈال چکے ہیں۔

موجودہ لاٹ میں بائیں ہاتھ سے گیند کرنیوالے محمد عامر سب سے سرفہرست ہیں جن کا دو ہزار سترہ کا یادگار سپل آج بھی داد دینے پر مجبور کردیتا ہے ۔

عامر کی گھومتی گیندوں کے آگے ویرات کوہلی، روہت شرما اور شیکھر دھون بے بس نظر آئے ۔ اس میچ میں محمد عامر نے سولہ رنز دیکر تین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دیکھائی تھی ۔ اس بار بھی شائقین کرکٹ کی نظریں محمد عامر بمقابلہ کوہلی اور روہت شرما پر ہی ہونگی۔

محمد عامر کو نفسیاتی برتری بھی حاصل ہے ایک تو وہ انگلینڈ کے میدان پر بھارتی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر چکے ہیں اور دوسرا وہ حالیہ ورلڈ کپ کے کامیاب ترین بالر بھی ہیں۔

جب بھی سامنا ہوا کوہلی کو آؤٹ کروں گا، حسن علی | urduhumnews.wpengine.com

حسن علی ابھی تک ورلڈکپ میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دیکھا سکے لیکن بھارت کیخلاف ان کا جنریٹر چل پڑتا ہے پچھلی بار انہوں نے انگلینڈ کی سرزمین پر ایم ایس دھونی سمیت تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا۔

شاداب کی گھومتی گیندیں بھی بھارتی سورماؤں کو پریشان کرینگی۔ وہاب ریاض کو بھلا کون بھول سکتا ہے جو ورلڈکپ میں ہمیشہ ہی اپنے برق رفتار گیندوں سے مخالفین کو پریشان کردتے ہیں ۔ بھارت کیخلاف دو ہزار گیارہ کے سیمی فائنل مقابلہ میں انہوں نے پانچ وکٹیں اڑائیں تھیں۔

شاداب خان کو کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل گئی
فائل فوٹو

اولڈٹریفرڈ مانچسٹر کے میدان کی بات کریں تو یہ دوسرا موقع ہوگا جب پاک بھارت ٹیمیں اس گراؤنڈ پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گی ۔ پہلی مرتبہ دونوں ٹیمیں انیس سو ننانوے کے ورلڈ کپ میں آمنے سامنے آئیں ۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پاکستان کو دو سو اٹھائیس رنز کا ہدف دیا لیکن قومی ٹیم ایک سو اسی رنز بنا کر میچ ہار بیٹھی ۔

ماضی کے برعکس اس بار روایتی حریفوں کے درمیان میچ ہائی سکورننگ تصور کیا جارہا ہے کیونکہ دونوں ٹیمیں تین سو سے زائد سکورز کرنے کے کی قابلیت رکھتی ہیں اور دونوں ہی ٹیموں کے بلے باز بھی خوب فارم میں ہیں مگر اعداد و شمار کچھ اور ہی کہانی بیان کررہے ہیں۔ یہاں پہلے کھیلنے والی ٹیم چالیس مرتبہ کامیاب ہوئی اور تعاقب کرنیوالی ٹیم ساٹھ فیصد کامیاب ہوئی ہے۔

سال دوہزار دس سے یہاں بلے بازوں کی اوسط پچیس رنز فی وکٹ ہے جبکہ بالرز کی اوسط اٹھائیس رنز فی وکٹ ہے ۔ سال دوہزار دس سے اب تک کھیلے گئے9 میچزمیں یہاں فرسٹ اننگز کا اسکور دو سو چھپن ہے۔ یہاں ایک سو چونسٹھ رنز کے ہدف کا بھی کامیابی سے دفاع کیا گیا ہے۔

اس گراونڈ پر اب تک صرف تین بار ہی تین سو سے زائد رنز سکور ہوئے ہیں ۔ یہاں فاسٹ بالر کی اوسط ستائیس رنز فی وکٹ ہے جبکہ اسپنرز کی یہاں ایورج تیس رنز فی وکٹ ہے۔

کاؤنٹ ڈاؤن تو شروع ہے بس اب انتظار ہے اس گھڑی کا جب ٹاس ہوگا اور میچ کی پہلی گیند پھینکی جائیگی ۔ ماہرین کرکٹ نے تو بھارت کو ہر بار کی طرح فیورٹ قرار دیا ہے لیکن آپ کو یاد ہے نہ چمپیئنز ٹرافی کا وہ فائنل جہاں ماہرین کی تمام آراء کو پاکستان کے باصلاحیت کھلاڑیوں نے غلط ثابت کر دکھایا تھا۔

صورتحال بھی پاکستانیوں کے حق میں لگتی ہے کیونکہ گرین شرٹس “ماسٹر ہیں لیٹ ٹوئسٹ” کے ۔ دو میچ ہارنے ایک جیتنے اور ایک برابر ہونے کے بعد گیم میں ٹوئسٹ تو بنتا ہے ناں؟

یہ بھی پڑھیے:ورلڈ کپ تاریخ کے آئینے میں 


متعلقہ خبریں