چرا گاہوں کی تانوں اور جوگیوں کی خود کلامی کا شاعر:ابن انشا


اسلام آباد: کسی نے لکھا تھا کہ ’’لاہور میں ایک ’چینی‘ کی جوتوں کی دکان تھی تو وہاں سڑک سے گزرتے ہوئے ایک صاحب دکان میں داخل ہوئے اور ایک جوتا اٹھا کر مالک سے پوچھا کہ اس کے کیا دام ہیں‘‘؟

دکاندار نے یہ سننے کے بعد نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ ’’یہ آپ کے پاؤں کے ناپ کا نہیں ہے تو اسے لے کر کیا کریں گے‘‘؟

جواب سن کر دام پوچھنے والے صاحب نے انتہائی اطمینان و سکون سے کہا کہ ’’۔۔۔ لیکن میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں، اس کا ترجمہ کروں گا‘‘۔

لکھنے والے نے لکھا تھا کہ دام پوچھنے والے شیر محمد خان تھے جنہیں دنیا ابن انشا کے نام سے جانتی ہے۔ آج ان کی سالگرہ کا دن ہے۔ وہ 15 جون 1927 کو جالندھر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔

عین ممکن ہے کہ ابن انشا کی خوش طبعی کو جوتے کے ترجمے سے تشبیہ دے دی گئی ہو لیکن یہ درست ہے کہ انہوں نے اس زمانے میں چینی لوک گیتوں اور صحیفہ کنفیوشس کا ترجمہ کیا تھا جب ’سی پیک‘ کا شور و غوغا نہیں تھا۔ وہ تو اس زمانے میں دعوت دے رہے تھے کہ چلتے ہو تو چین کو چلیے۔

ابن انشا کی شخصیت میں ’پراسراریت‘ تلاش کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن راقم کے خیال میں ان کی پراسراریت دراصل ان کی شخصیت کا انوکھا پن ہے اور اسی وجہ سے شاید وہ ایڈ گر ایلن پو کو اپنا گرو دیو بھی قرار دیتے تھے۔

شاہکار نظموں کے حوالے سے ممتاز شاعر میراجی بھی ایڈ گرایلن پو کی شاعری اور شخصیت کے اسیر رہے تھے ان کے بعد ابن انشا نے اس کی کہانیوں کا ترجمہ کیا تھا جو ’اندھا کنواں‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔

چرا گاہوں کی تانوں اور جوگیوں و بیراگوں کی خود کلامیوں کو اپنا موضوع بنانے والے ابن انشا کی شاعری کی نظمیں ناقدین کی نگاہ میں عہد حاضر کy تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ مروجہ اسلوب سے بالکل جداگانہ طرزکی حامل ہیں۔

ان کا پہلا مجموعہ کلام چاند نگرتھا جو پوکی ایک نظم سے مستعار تھا۔ انہوں نے ازخود دیباچہ لکھا تھا جس میں توجیہ پیش کی تھی کہ “گرو دیو ایڈگر ایلن پو کی ایک نظم ہے۔۔۔۔ ایلڈوریڈو یعنی شہر تمنا۔۔۔۔ قصّہ اس کا یہ ہے کہ ایک بہادر جی دار نائٹ اوپچی بنا دھوپ اور سائے سے بے پروا ایلڈوریڈو کی تلاش میں مستانہ گیت گاتا گھوڑا اڑاتا چلا جا رہا ہے, برسوں گزر گئے, زندگی کی شام آ گئی۔ اسے روئے زمین پر کوئی ایسا خطہ نہ ملا جو اس کے خوابوں کے شہر کا مثیل ہوتا۔ آخر جب اس کی تاب و تواں جواب دینے کو تھی اسے ایک بڈھا پھوس زائر ملا جو سفر کی صعوبتوں سے گھل کر سائے کے سمان رہ گیا تھا۔ اس پیر فرتوت نے بھوؤں کی جھالر ہٹاتے ہوئے کہا اگر تمہیں اس شہر جادو کی تلاش ہے تو چاند کی پہاڑیوں کے اُدھر سایوں کی وادی طویل میں قدم بڑھائے گھوڑا دوڑائے آگے ہی آگے بڑھتے چلو۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں اس سورما نائٹ کو وہ شہر تمنا ملا کہ نہیں لیکن سفر جاری رکھنے اور گھوڑا آگے بڑھانے کا بہانہ ضرور مل گیا۔ شاعر کو بھی ذہنی طور پر سند باد جہازی یا یولیسس ہونا چاہیے یعنی اس کے سامنے ایک نہ ایک ایلڈدوریڈو۔۔۔۔ ایک نہ ایک چاند نگر کا ہونا ضروری ہے‘‘۔

حقیقتاً ابن انشا ترقی پسند شاعر تھے مگر ان کی ترقی پسندی ملک میں جاری تحریک اور اس حوالے سے قائم پارٹی سے یکسر مختلف تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج کئی دہائیوں کے بعد بھی ان کی نظمیں مضافات، امن کا آخری دن، افتاد، شنگھائی، کوریا کی خبریں اور کوچے کی لڑائی لوگوں کے حافظے میں محفوظ ہیں۔

اپنی نظموں کے لیے اپنی فضا تخلیق کرنے والے ابن انشا نے طویل نظموں میں یہ تجربہ کیا کہ چھوٹی و بڑی اور مختلف البحر نظموں کا ایک مرکب بنایا اوراپنے تاثر سے نظموں میں ایک وحدت پیدا کی۔

پنجابی شاعری کی ایک صنف”سی حرفی” بھی ہے جس کو انہوں نے اپنی شاعری میں خوب خوب برتا ہے۔

ابن انشا نے شاعری کے بعد تبصرے، خاکے، ترجمے، سفر نامے، مزاحیہ مضامین اور بچوں کی نظموں سمیت دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی ۔

شیر محمد خاں المعروف ابن انشا نے آزادی کے بعد پاکستان ہجرت کی اور پنجاب یونیورسٹی و کراچی یونیوسٹی سے تعلیم حاصل کی۔

ان کے متعلق شائع شدہ ایک مضمون نگار نے لکھا تھا کہ انہوں نے پی ایچ ڈی میں داخلہ بھی لیا تھا مگر اس سے دست بردار بھی ہو گئے تھے۔ اس دست برداری کے متعلق خود انہوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ “میں برنارڈ شا کا مرید ہوں جس نے لکھا تھا کہ ساری انسائیکلو پیڈیا لکھنے کی نسبت ایلس ان ونڈر لینڈ کا مصنف ہونا زیادہ پسند کروں گا‘‘۔

کچھ افراد نے ابن انشا کو صوفی بھی قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں انہیں ’کشف‘ ہوتا تھا۔ اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ ان کے بہت سے قیاس درست ثابت ہوتے تھے۔

صحیح یا غلط، یہ تو نہیں معلوم لیکن دنیائے ادب، صحافت اور موسیقی میں یہ بات مشہور ہے کہ زبان زد عام ہونے والی معروف غزل ؎

انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانا کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانا کیا
اس کو بھی جلا دکھتے ہوئے من اک شعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا یوں ماٹی میں مل جانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستا دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا

کہنے کے کچھ ہی عرصے بعد انشا جی حقیقی معنوں میں دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ غزل کو سر و نغمگی عطا کرنے والے استاد امانت علی خان نے بھی داعی اجل کو فوراً لبیک کہا اور پھر جب ان کے صاحبزادے اسد امانت علی خان نے اس غزل کے سر چھیڑے تو وہ بھی عالم جوانی میں ’عدم آباد‘ کے مکین ہو گئے۔

ابن انشا 1962 میں نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بک ڈویلپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کو پبلی کیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رکن بھی رہے ۔ روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ امروز لاہورکے ہفت روزہ ایڈیشنز اور ہفت روزہ اخبار جہاں میں ہلکے پھلکے فکاہیہ کالم بھی لکھتے رہے۔

ابن انشا نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی و ایشیائی ممالک کا دورہ کیا جن کا احوال اپنے سفر ناموں میں مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا۔

ان کا انتقال گیارہ جنوری 1978 کو لندن میں ہوا۔ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں وہ آسودہ خاک ہیں۔ ابن انشا کو 1978 ہی میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا گیا۔ ؎

انشاؔ جی ہے نام انہی کا ، چاہو تو ان سے ملوائیں؟
ان کی روح دہکتا لاوا، ہم تو ان کے پاس نہ جائیں!
یہ جو لوگ بنوں میں پھرتے، جوگی بے راگی کہلائیں
ان کے ہاتھ ادب سے چومیں، ان کے آگے سیس نوائیں!
سید ھے من کو آن دبوچیں، میٹھی باتیں سندر بول
میرؔ، نظیرؔ، کبیرؔ اور انشاؔ … سارا ایک گھرانا

انشاؔ سے ملو اس سے نہ روکیں گے و لیکن

اس سے یہ ملاقات نکالی ہے کہاں کی!

مشہور ہے ہربزم میں اس شخص کا سودا

باتیں ہیں بہت شہر میں بدنام میاں کی!

امڈے آئے ہیں شام کے سائے
دم بدم بڑھ رہی ہے تاریکی!

اداس رات کے آنگن میں رات کی رانی
مہک رہی ہے … دل بیقرار بات تو سن!

شام ہوئی پر دیسی پنچھی گھر کو بھاگے
دل اپنا ہم کھول کے رکھیں کس کے آگے

پھیلتا پھیلتا شام غم کا دھواں
اک اداسی کا تنتا ہوا سائباں!

؎ اِنشاؔ جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے، تم تنہا ہو
یہ جوگ بجوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو؟
کبھی پورب میں پچھم میں
تم پُروا ہو تم پچھوا ہو؟
جو نگری نگری بھٹکائے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں
کیا ایک تمہی یہاں دُکھیا ہو
کیا ایک تمہی پر دُھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کا سایا ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بگیا کا پھول میاں
کیوں شہر تجا، کیوں رُسوا ہو؟
کیوں وحشی ہو، کیوں رُسوا ہو؟
ہم جب دیکھیں بہروپ نیا
ہم کیا جانیں تم کیا کیا ہو؟

؎ اپنے ہمراہ جو آتے ہو، اِدھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں، گھر سے پہلے
چل دئیے اُٹھ کے سوئے وفا، کوئے حبیب
پوچھ لینا تھا کسی خاک بسر سے، پہلے
عشق پہلے بھی کیا، ہجر کا غم بھی دیکھا
اتنے تڑپے ہیں، نہ گھبرائے، نہ ترسے پہلے
جی بہلتا ہی نہیں اب کوئی ساعت، کوئی پل
رات ڈھلی ہی نہیں چار پہر سے پہلے
ہم کسی دَر پہ ٹھٹکے، نہ کہیں دستک دی
سینکڑوں دَر تھے مری جان تیرے دَر سے پہلے
چاند سے آنکھ ملی، جی کا اُجالا جاگا
ہم کو سو بار ہوئی صبح سحر سے پہل

؎ اور تو کوئی بس نہ چلے گا ہجر کے درد کے ماروں کا
صبح کا ہونا دوبھر کر دیں رستہ روک ستاروں کا
جھوٹے سکوں میں بھی اٹھا دیتے ہیں یہ اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودے کرنا کام ہے ان بنجاروں کا
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بچاروں کا
جس جپسی کا ذکر ہے تم سے دل کو اسی کی کھوج رہی
یوں تو ہمارے شہر میں اکثر میلا لگا نگاروں کا
ایک ذرا سی بات تھی جس کا چرچا پہنچا گلی گلی
ہم گمناموں نے پھر بھی احسان نہ مانا یاروں کا
درد کا کہنا چیخ ہی اٹھو ، دل کا کہنا وضع نبھاؤ
سب کچھ سہنا چپ چپ رہنا کام ہے عزت داروں کا
انشاؔ جی اب اجنبیوں میں چین سے باقی عمر کٹے
جن کی خاطر بستی چھوڑی نام نہ لو اُن پیاروں کا
دیکھ مری جان کہہ گئے باہوؔ کون دلوں کی جانے ’ہو‘
بستی بستی صحرا صحرا، لاکھوں کریں دِوانے ’ہو‘

؎ جوگی بھی جو نگر نگر مارے مارے پھرتے ہیں
کاسہ لیے بھبھوت رمائے سب کے دوارے پھرتے ہیں

شاعر بھی جو میٹھی بانی بول کے من کر ہرتے ہیں
بنجارے جو اُونچے داموں جی کے سودے کرتے ہیں

ان میں سچے موتی بھی ہیں، ان میں کنکر پتھر بھی
ان میں اُتھلے پانی بھی ہیں، ان میں گہرے ساگر بھی

گوری دیکھ کے آگے بڑھنا سب کا جھوٹا سچا ’ہو‘
ڈوبنے والی ڈوب گئی وہ گھڑا تھا جس کا کچا ’ہو‘

؎ ہم رات بہت روئے بہت آہ و فغاں کی
دل درد سے بوجھل ہو تو پھر نیند کہاں کی
سر زانوں پہ رکھے کیا سوچ رہی ہو
کچھ بات سمجھتی ہو محبت زدگاں کی
تم میری طرف دیکھ کے چپ سی ہو گئیں تھیں
وہ ساعت خوش وقت نشاط گزراں کی
اِک دن یہ سمجھتے تھے کہ پایانِ تمنا
اک رات ہے مہتاب کے ایامِ جواں کی
اب اور ہی اوقات ہے اے جان تمنا
ہم نالۂ کشاں‘ بے گنہاں‘ غم زدگاں کی
اِس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو
کہتے ہو کبھی بات وہاں جا کے یہاں کی؟
اللہ کرے میرؔ کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
پڑھتے ہیں شب و روز اسی شخص کی غزلیں
غزلیں کہ حکایات ہیں ہم دل زدگاں کی

؎ ہم ان سے اگر مل بیٹھتے ہیں‘ کیا دوش ہمارا ہوتا ہے
کچھ اپنی جسارت ہوتی ہے، کچھ اُن کا اشارا ہوتا ہے
کٹنے لگیں راتیں آنکھوں میں‘ دیکھا نہیں پلکوں پر اکثر؟
یا شامِ غریباں کا جگنو، یا صبح کا تارا ہوتا ہے
ہم دل کو لیے پر دیس پھرے، اس جنس کے گاہک نہ مل سکے
اے بنجارو ہم لوگ چلے، ہم کو تو خسارا ہوتا ہے
دفتر سے اُٹھے‘ کیفے میں گئے، کچھ شعر کہے‘ کچھ کافی پی
پوچھو جو معاش کا انشاؔ جی یوں اپنا گزارا ہوتا ہے

؎ ہم گھوم چکے بستی بَن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
جب ساون میں بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا رُوپ لٹاتا ہو
جب سورج دُھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دِل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
کیا جھگرا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا رُوپا لے جائے
سب دُنیا، دُنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو

؎ اس دل کے جھروکے میں اک روپ کی رانی ہے
اس روپ کی رانی کی تصویر بنانی ہے
ہم اہلِ محبت کی وحشت کا وہ درماں ہے
ہم اہلِ محبت کو آزارِ جوانی ہے!!
یاں چاند کے داغوں کو سینے میں دباتے ہیں
دنیا کہے دیوانہ یہ دنیا دیوانی ہے
اک بات مگر ہم بھی پوچھ لیں جو اجازت!
کیوں تم نے یہ غم دے کے پردیس کی ٹھانی ہے
سکھ لے کے چلے جانا، دکھ دے کے چلے جانا
کیوں حسن کے ماتوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہدیۂ دلِ مفلس کا ،چھ شعر غزل کے ہیں
قیمت میں تو ہلکے ہیں، انشاء کی نشانی ہے

؎ کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے
ہم ہنس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا
اس شہر میں کس سے ملیں؟ ہم سے تو چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تیرا نام لے، ہر شخص دیوانہ تیرا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر، جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے، پربت ترے، بستی تری، صحرا ترا


ٹیگز :
متعلقہ خبریں