ہم ہر ہفتے ایک اے ٹی ایم کارڈ کے برابر پلاسٹک کھا رہے ہیں

ہم ہر ہفتے ایک اے ٹی ایم کارڈ کے برابر پلاسٹک کھا رہے ہیں

پلاسٹک کا استعمال نہ صرف ہماری روزمرہ زندگی میں بڑھ رہا ہے بلکہ اس کے ذرات ہماری خوراک میں بھی شامل ہو رہے ہیں۔

ایک نئی تحقیق کے مطابق ہم سات دن میں ایک اے ٹی ایم کارڈ کے برابر پلاسٹک ہضم کر رہے ہیں جس کا وزن  پانچ گرام بنتا ہے۔

ہماری خوراک اور مشروبات میں پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات شامل ہوتے ہیں جن کا مجموعی وزن ایک ہفتے میں سو گرام کے 20ویں حصے تک پہنچ جاتا ہے۔

آسٹریلوی یونیورسٹی کی تازہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہمارا معدہ سات دن میں اوسطاََ پلاسٹک کے 2000 ذرات ہضم کرتا ہے۔ یہ ذرات کچھ کمپنیوں کے ٹوتھ پیسٹ، کپڑوں میں استعمال ہونے والے پلاسٹک اور فضا سے ہماری خوارک میں شامل ہوتے ہیں۔

سمندر اور دیگر آبی ذخائر میں پھینکا جانے والے پلاسٹک مچھلیوں اور آبی مخلوق کی خوراک بنتا ہے جسے بعد ازاں انسان استعمال کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہونے والے کولڈ ڈرنکس، الکوحل اور سمندری نمک میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات شامل ہوتے ہیں۔

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے بنائی گئی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف نے’ پلاسٹک کے بغیر قدرتی ماحول‘ کے عنوان سے ایک تحقیق شائع کی جس کا مقصد یہ پتہ چلانا تھا کہ پلاسٹک کس طرح ماحول سے انسانی خوراک کا حصہ بنتا ہے۔

مذکورہ تنظیم نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ انسان اوسطاََ ہفتے میں پلاسٹک کے 1769 ذرات صرف پانی کے ذریعے اپنے نظام انہضام میں داخل کرتا ہے اور اس کی شرح ممالک کے لحاظ سے کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔

رواں ماہ شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کے مطابق امریکہ میں لوگ سالانہ 74 ہزار سے ایک لاکھ 21 ہزار کے درمیان پلاسٹک کے ذرات خوارک، ہوا اور پانی کے ساتھ اپنے اندر لے جاتے ہیں۔
امریکہ میں جولوگ بوتل کا پانی استعمال کرتے ہیں وہ ایک سال میں تقریباََ 90 ہزار ذرات اپنے معدے میں ڈالتے ہیں۔

صحت پر اثرات

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انسانی صحت پرپلاسٹک کے مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پلاسٹک بنیادی طور پر نقصان دہ نہیں ہے لیکن انسانی صحت پر اس کے اثرات کا ٹھیک اندازہ لگانے کے لیے مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی خوراک پلاسٹک سے پاک بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے کے لیے ہمیں پیداوار کم کرنی پڑے گی۔ دنیا میں سالانہ تین کروڑ30 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک پیدا ہوتا ہے اور 2050 تک یہ مقدار تین گنا بڑھ جائے گی۔


متعلقہ خبریں