9/11 کی اطلاع سی آئی اے کو 40 دن قبل مل گئی تھی لیکن۔۔۔؟

9/11 کی اطلاع سی آئی اے کو 40 دن قبل مل گئی تھی لیکن۔۔۔؟

استنبول: ترکی کے محکمہ انسداد دہشت گردی، نیشنل اینٹیلی جنس آرگنائزیشن (National Intelligence Organization) ’ایم آئی ٹی‘ کے بانی سربراہ محمت ایمور نے یہ دعویٰ کرکے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے کہ انہوں نے سانحہ 9/11 وقوع پذیر ہونے سے 40 دن قبل ہی  امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے کو آگاہ کردیا تھا لیکن ان کی جانب سے دی جانے والی اطلاع کو قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں پیش آنے والے سانحہ کی بابت انہوں نے اپنے چند قریبی ساتھیوں کو بھی بتایا تھا۔

ترکی کی ایم آئی ٹی کے سابق سربراہ نے یہ دعویٰ اپنی تازہ ترین کتاب میں کیا ہے جو فروخت کے لیے ایک دن قبل پیش کی گئی ہے۔ ان کی تحریر کردہ کتاب ’ڈیسائفر‘ (Decipher) کے نام سے منظر عام پرآئی ہے۔

ایم آئی ٹی کے بانی سربراہ نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ 9/11 حملوں کی اطلاع انہیں منشیات کے ایک ترک تاجر مصطفیٰ سے ملی تھی۔

9/11 کا سانحہ 2001 میں وقوع پذیر ہوا تھا جس کے فوری بعد پوری دنیا نہ صرف ہل کر رہ گئی تھی بلکہ اس کے اثرات سے تاحال نکل بھی نہیں سکی ہے۔ اسی کو جواز بنا کر افغانستان پر لاکھوں ٹن بارود برسایا گیا، لاکھوں انسانوں کا قتل ہوا، عراق اور لیبیا سمیت مشرق وسطیٰ ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہوا اور بھاری مالی نقصانات ہوئے۔

ترک محمت ایمورنے کہا ہے کہ اگر ان کی جانب سے دی جانے والی اطلاع کو سی آئی اے سنجیدگی سے لیتی تو ان ہزاروں افراد کی زندگیاں محفوظ بنائی جاسکتی تھیں جنہیں 9/11 کے حادثے میں نقصان پہنچا۔ ان کا مؤقف ہے کہ حملوں کی پیشگی اطلاع دینے کے بعد انہوں نے امریکی سی آئی حکام سے ملنے کی بھی خواہش کا اظہار کیا تھا تاکہ اہم مسئلے پر بات کرسکیں۔

دہشت گردی کے حوالے سے تین مختلف کتب کے مصنف محمت ایمور نے اپنی چوتھی کتاب کے حوالے سے ترکی کی نیوز ایجنسی ’Demirören News Agency‘ (ڈی این اے) کو ایک انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے اس حوالے سے دیگر مزید واقعات بتائے ہیں۔

کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ جب میں نے سی آئی اے حکام سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو طے ہوا کہ سی آئی اے کے اہلکار دو دن بعد میرے گھر پر ملاقات کریں گے۔ اس کے بعد دو اگست 2001 کو ایک خاتون آئیں جنہیں میں پہلے سے جانتا تھا۔ ان کے ہمراہ ایک شخص بھی تھا جس کو میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ میں نے ترک تاجر مصطفیٰ سے کہا کہ وہ ہوٹل میں میرا انتظار کرے کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ تم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کریں۔

محمت ایمور کا کہنا ہے کہ سی آئی اے افسران سے ترکی زبان میں بات چیت ہوئی جس میں اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا لیکن سی آئی اے نے اس میں کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کی البتہ نائن الیون حملوں کے بعد سی آئی اے افسران نے ان سے کہا کہ وہ حملوں کی اطلاع دینے والے ترک تاجر سے کس طرح ملاقات کر سکتے ہیں؟ کیونکہ وہ طیارہ حملوں کے بعد الجھ گئے تھے۔

ترکی کی ایم آئی ٹی کے بانی سربراہ کا کہنا ہے کہ میں نے امریکی سی آئی اے افسران کو صرف منشیات کے ترک تاجر کا نام بتایا تھا اور دیگر تفصیلات نہیں بتائی تھیں کیونکہ میں اسے نقصان پہنچانا نہیں چاہتا تھا البتہ اب مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے؟ کیونکہ اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا۔

محمت ایمور کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی کے افسران نے 9/11 کے بعد مصطفیٰ سے ملاقات ضرور کی تھی جو تقریباً 20 منٹ جاری رہی تھی لیکن چونکہ وہ ایک دوسرے کی زبان سے آشنا نہیں تھے اس لیے ان کے درمیان کوئی خاص اور مفید بات چیت نہیں ہو ئی تھی۔ ملاقات ’غیر مؤثر‘ رہی تھی یہ بات خود مصطفیٰ نے انہیں بتائی تھی۔

ترکی کی نیشنل اینٹیلی جنس آرگنائزیشن کے بانی سربراہ کا دیا گیا انٹرویو ترکی سے شائع ہونے والے مؤقر اخبار ’روزنامہ صباح‘ نے شہہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا ہے۔

اخبار نے کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس وقت انہوں نے القاعدہ کی جانب سے تیار کردہ 9/11 منصوبے کی بابت امریکی سی آئی اے کو اطلاع دی تھی اس وقت وہ امریکہ ہی میں مقیم تھے۔

محمت ایمور نے ’کف افسوس‘ ملتے ہوئے کتاب میں لکھا ہے کہ میری جانب سے اطلاع دیے جانے کے ٹھیک 40 دن بعد امریکہ کی سرزمین پردہشت گردی کا جو واقعہ وقوع پذیر ہوا اس کے نتیجے میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک  اور چھ ہزار زخمی ہوئے۔ ان کا کہناہے کہ کاش! امریکہ کی سی آئی اے کے حکام مصطفیٰ کو سنجیدہ لے لیتے تو یہ خوفناک حادثہ پیش نہ آتا۔

ترکی اینٹیلی جنس کے سابق سربراہ کے مطابق یہی وہ واقعہ ہے جس کی بنیاد پرنہ صرف دو لاکھ سے زائد افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بلکہ لاکھوں دربدری کا بھی شکار ہوئے ہیں۔

محمت ایمور کے مطابق اس واقعہ کے بعد ہی امریکہ نے زیادہ جارحانہ رویہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنایا اور نتیجہ عراق سمیت دیگر کو بھگتنا پڑا ہے۔

ترکی کے اخبار صباح نے لکھا ہے کہ محمت ایمور نے 1965 سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور 30 سال خدمات انجام دیں۔ اس دوران وہ اپنے کام کی وجہ سے  مشہور ہوئے تو انہیں سخت نکتہ چینی کا بھی نشانہ بننا پڑا کیونکہ وہ مقبولیت جتنے ’متنازعہ‘ بھی رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں