وزیراعظم نے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن سے خود کو الگ کرکے اچھا کام کیا، تجزیہ کار


اسلام آباد: تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن سے خود کو الگ کرکے اچھا کام کیا ہے، اس سے کمیشن کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔

پروگرام ویوز میکرز میں میزبان زریاب عارف سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار لیفٹینٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے ابتدائی اعلان سے انحراف کیا ہے لیکن اگر خود وہ کمیشن کے سربراہ رہتے تو حزب اختلاف کو باتیں کرنے کا موقع ملتا۔ اس کمیشن کی آئینی حیثیت کا سوال ہوگا کیوں کہ احتساب کے لیے اصل ادارہ نیب ہے۔

تجزیہ کار منصور علی خان نے کہا کہ عمران خان کو یوٹرن کے بجائے ٹرن خان کہیں۔ جن سیاسی جماعتوں سے انہیں اختلاف ہے ان سے متعلق تحقیقات کی سربراہی وہ خود کیسے کرسکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو اس معاملے پر پہلے بھی تحفظات تھے اور اب بھی ہیں۔ اگر وزیراعظم تحقیقات کرنا چاہتے ہیں تو 20 سال سے کریں۔

تجزیہ کار سید ثمر عباس کی رائے تھی کہ اگر اس سے فیصلے میں بہتری آئی ہے تو یہ رائٹ ٹرن ہے۔ وزیراعظم کا خود کو الگ کرنا اہم فیصلہ ہے، ان کی اپنی توجہ اپوزیشن پر الزامات کے بجائے معیشت ٹھیک کرنے پر ہونی چاہیے۔

تجزیہ کار مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان میں خود کو سب سے ایماندار سمجھتے ہیں اس لیے وہ خود ہی کمیشن کی بھی سربراہی کریں۔

تجزیہ کار عاصمہ ودود نے کہا کہ احتساب معیشت کے لیے خراب نہیں ہوسکتا۔ مسائل کی نشاندہی ہوجانا اچھی بات ہے کہ جب سے بھی ہوجائے۔ شفاف طریقے سے یہ سامنے آنا چاہیے کہ ہم معاشی طور پر جہاں ہیں وہاں کیسے پہنچے۔

مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقات میں شہبازشریف کی غیرموجودگی کے حوالے سے مشرف زیدی نے کہا کہ شہبازشریف اور نوازشریف کے اختلافات کے حوالے سے بہت عرصے سے کوششیں ہورہی ہیں۔ رائے کا اختلاف ہے جسے جسے پارٹی کی سطح تک دکھانے کی کوشش ہورہی ہے۔

منصور علی خان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے دونوں دروازے کھلے رکھے ہوئے ہیں اور بلاول اور مفاہمت کے ساتھ ساتھ بات چیت جاری رکھی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن اس حوالے سے تقسیم ہونے والی نہیں ہے، یہ ان کی طرف سے محض چال ہے۔

سید ثمر عباس نے کہا کہ شہبازشریف اور نوازشریف میں بیانیے کا اختلاف ہے۔ نوازشریف نے نااہلی کے بعد مزاحمتی سیاست کی جبکہ شہبازشریف نے گرفتاری کے باوجود مفاہمتی انداز برقراررکھا۔

مزید پڑھیں: ’جون کے آخری ہفتے میں اے پی سی کا انعقاد کریں گے‘

امجد شعیب کا کہنا تھا کہ مریم نوازنے بلاول بھٹو سے ملاقات نواز شریف اور شہباز شریف کی رضامندی سے کی ہے۔ اپوزیشن کا اصل مسئلہ ان کا عدم اعتماد ہے کہ جس جس کو فائدہ نظر آیا وہ اکیلا ہی اس سے فائدہ اٹھا لے گا۔

عاصمہ ودود نے کہا کہ مفاہمتی اور مزاحمتی سیاست کرنا مسلم لیگ ن کی قیادت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ یہ ایک ساتھ دونوں راستوں پر چل رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ لے سکیں لیکن اصل مسئلہ آپس میں اعتماد کا فقدان ہے۔

وزیراعظم سے اٹارنی جنرل کی ملاقات کے حوالے سے  منصور علی خان نے کہا کہ وزیراعظم نے چیئرمین نیب سے پہلے بھی اس وقت ملاقات کی جب خود ان پر نیب میں کیس چل رہا تھا۔ انہیں ان معاملات سے دور رہنا چاہیے کہ اس سے معاملات تنازعات کاشکار ہوجاتے ہیں۔

مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے لیکن اٹارنی جنرل اور وزیراعظم کی ملاقات میں کوئی ایسی بات نہیں کہ نہیں ہونی چاہیے تھی۔

امجد شیعب نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے کچھ معاملات پر شاہد حکومت کا موقف مانگا ہو تو اسی سلسلے میں اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے ملاقات کی ہو۔ مشاورت کے لیے ملاقات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سید ثمر عباس کا کہنا تھا کہ قانونی لحاظ سے ملاقات میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق اٹارنی جنرل نے یہ ملاقات سپریم جوڈیشل کونسل کی تجویز پر ہی کی ہے۔


متعلقہ خبریں