دنیا کا انحصار نوجوانوں پر لیکن ہم تجربے کے پیچھے کیوں؟


عالمی کپ 2019 میں پاکستان کی کارکردگی اب تک انتہائی مایوس کن رہی ہے، روایتی حریف بھارت سے شکست کے بعد ٹیم میں گروپ بندی اور اختلافات کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں۔

ون ڈے کرکٹ میں قومی ٹیم کی کارکردگی چیمپئنز ٹرافی کے بعد سے زبوں حالی کا شکار رہی ہے۔

2017 میں چیمپنئر ٹرافی جیتنے والی سرفراز الیون ون ڈے کی کوئی بھی بڑی سیریز جیتنے میں ناکام رہی ہے۔

حالیہ کارکردگی کے بات کریں تو قومی ٹیم کو پہلے نیوزی لینڈ، پھر جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ون ڈے سیریز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

انگلینڈ روانگی سے قبل متحدہ عرب امارات میں پاکستان نے آسٹریلیا کا سامنا کیا۔ اس سیریز سے قبل پاکستان سپر لیگ کھیلی گئی تھی جس میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو کنگروز کے خلاف کھلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ’سرفراز کپتانی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے‘

پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں رنز کا انبار لگانے والے عابد علی کو بالآخر سیلکڑز کا اعتماد حاصل ہو گیا ۔

تاہم سلیکڑز کا یہ تجربہ ناکام ہوا اور بھارت سے سیریز جیت کر آنے والی ایرون فنچ الیون نے قومی ٹیم کو کلین سویپ شکست دے دی۔

نئے منتخب کئے جانے والے کھلاڑیوں میں عمر اکمل، محمد حسنین، عابد علی اور محمد عباس شامل تھے۔

اس سیریز میں عابد علی اور محمد رضوان نے سینچریاں اسکور کیں تاہم قومی ٹیم کی باؤلنگ لائن خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی۔

قومی ٹیم کی قیادت شعیب ملک کو دی گئی جبکہ سرفراز، بابر اعظم اور چند دیگر کھلاڑیوں کو آرام کروایا گیا۔

عالمی کپ سے قبل ٹیم سلیکشن کا مرحلہ آیا، بھارت نے تجربہ کار کھلاڑیوں جن میں ہربجھن سنگھ، گوتم گمبھیر، سوریش رائنا، روی چندن ایشون اور یوراج سنگھ کو ٹیم میں شامل کرنے کی بجائے نوجوان کھلاڑیوں کو منتخب کیا۔

اسی طرح آسٹریلیا نے بھی ٹم پین، جارج بیلی اور ہیزل ووڈ کی جگہ نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا۔

انگلینڈ نے جیمز اینڈرسن، اسٹورٹ براڈ جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کرنے کی بجائے نوجوان کھلاڑیوں پر انحصار کرنے کو اہمیت دی۔

شکست خوردہ جنوبی افریقہ کو اے بی ڈیویلئر جیسے تجربہ کار کھلاڑی نے ٹیم میں واپس آنے کی پیشکش کی تاہم ان کے کرکٹ بورڈ نے ان کی یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ کی سیلیکشن کمیٹی کے مؤقف کی بات کی جائے تو انہوں نے محمد رضوان، سعد علی، شان مسعود اور عابد علی کو ڈراپ کرنے کے بعد محمد حفیظ اور شعیب ملک کو فوقیت دی۔

گھبراہٹ کے شکار کرکٹ بورڈ نے وہاب ریاض کو ٹیم میں شامل کیا جو ان کے پلان کا بھی حصہ نہ تھے۔

اس وقت عالمی کپ میں سب سے اچھی کارکردگی دکھانے والی ٹیموں میں بھارت، انگلینڈ ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی ٹیمیں شامل ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کل کی جدید کرکٹ میں محض تجربے کی بنیاد پر کیا عمر رسیدہ کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ چاہیں ان کی کارکردگی ماضی میں خراب ہی کیوں نہ ہو؟


متعلقہ خبریں