دوحا: افغان طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد نے ایران کا دورہ کیا ہے جہاں اس کی ایرانی حکام سے بات چیت ہوئی ہے۔ افغان طالبان کا وفد اس سے قبل چین کا بھی دورہ کرچکا ہے جہاں چین کے اینٹیلی جنس حکام سمیت دیگر سے وفد کی ملاقات ہوئی تھی۔
افغان نیوز ایجنسی ’افق‘ کے مطابق طالبان ذرائع کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر امریکہ سے ہونے والی بات چیت ناکام ہوتی ہے تو تحریک طالبان دیگر علاقائی قوتوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
افغان طالبان کے وفد کے دورے کی تصدیق یا تردید ایرانی حکام کی جانب سے نہیں کی گئی ہے لیکن قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ذمہ دار ذرائع کے حوالے سے یہ دعویٰ سامنے آیا ہے۔
دورہ چین کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ طالبان کے سیاسی معاون ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان نے چین کا دورہ کیا تھا جہاں وفد نے چین کے انٹیلی جنس حکام سے بات چیت کی تھی۔
‘امریکہ نے افغانستان سے مکمل انخلا کی یقین دہانی کرادی‘
دلچسپ امر ہے کہ افغان طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد نے چین اور ایران کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب امریکہ کے ساتھ ان کی بات چیت مذاکرات کے آئندہ دور کے حوالے سے ہورہی ہے جو دوحا میں ہو گا۔
عالمی خبررساں ایجنسی کے مطابق غالب امکان ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان سات اور آٹھ جولائی کو مذاکرات ہوسکتے ہیں تاہم ابھی تک یہ تاریخ حتمی نہیں ہے۔
دلچسپ امر ہے کہ طالبان کے دورہ تہران کے متعلق ایران کی جانب سے کوئی بات نہیں کی گئی ہے لیکن افغانستان میں متعین ایران کے سفیر کے حوالے سے یہ بات ضرور سامنے آئی ہے کہ طالبان کو اقتدار میں شریک کیا جائے۔
افغانستان کے نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں ایران کے سفیر نے کہا کہ ہمارا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ پوری حکومت طالبان کے سپرد کردی جائے لیکن مستحکم حکومت کے لیے انہیں حکومتی ڈھانچے میں حصہ ضرور دیا جائے۔
افغانستان کے امور سے تعلق رکھنے والے بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا ایک نیا دور رواں ہفتے ہونے جارہا ہے جس میں قیام امن سے متعلق امور کو حتمی شکل دی جاسکتی ہے۔ مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت حسب سابق زلمے خلیل زاد کریں گے جب کہ طالبان کی سربراہ ملا عبدالغنی برادر کے سپرد ہوگی۔
عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان کے صوبہ قندھار میں ترجمان رہ چکنے والے عبدالحئی مطمئن کا کہنا ہے کہ دوروں سے لگتا ہے کہ فریقین کے مابین مذاکرات کا آئندہ دور زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔
دلچسپ امر ہے کہ افغان طالبان کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکہ، افغانستان سے اپنی افواج کے مکمل انخلا پر رضامند ہوگیا ہے لیکن امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے واضح کیا ہے کہ طالبان سے صرف امریکی افواج کے انخلا پر بات نہیں ہورہی ہے بلکہ مکمل امن منصوبے پر گفتگو کی جارہی ہے۔
افغانستان میں امن کے لیے ’قبضے‘کا خاتمہ لازمی ہے،ملا برادر
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے پیغام میں زلمے خلیل زاد نے واضح کیا کہ امن منصوبے کے چار نکات ہیں جو ایک دوسرے منسلک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن معاہدہ جن نکات پر مشتمل ہے ان میں انسدادِ دہشت گردی سے متعلق یقین دہانی، غیر ملکی فوج کا انخلا، افغان فریقین کے مابین مذاکرات، اس کے نتیجے میں کسی سیاسی سیٹ اپ پر اتفاقِ رائے اور ایک جامع و مستقل جنگ بندی شامل ہیں۔
زلمے خلیل زاد کے مطابق امن منصوبے پر فریقین کے درمیان بات چیت کا عمل جاری ہے۔
(1/3) As we prepare for the next round of talks with the Taliban, important to remember we seek a comprehensive peace agreement, NOT a withdrawal agreement.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) June 18, 2019
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے یہ وضاحت اس بیان کے بعد جاری کی ہے جس میں افغان طالبان کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ امریکہ، افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا پر رضا مند ہوگیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ امریکہ نے یقین دہانی کرادی ہے کہ وہ افغانستان کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کرے گا۔
کله دا پوښتنه کیږي چې په مذاکراتو کې څه پرمختګ شوی، نوپه مذاکراتو کې امریکا منلې چې خپلې ټولې قواوې به باسي.
— Suhail Shaheen (@suhailshaheen1) June 18, 2019
درج بالا میڈیا رپورٹس کو اس وقت مزید تقویت ملی جب قطر میں قائم طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر اپنا پیغام بھی جاری کیا۔
(2/2) او په راتلونکې کې به په افغانستان کې هیڅ ډول مداخله نه کوي، نو دا یو ښه پرمختګ دی.
— Suhail Shaheen (@suhailshaheen1) June 18, 2019
سہیل شاہین نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے طالبان کا مرکزی مطالبہ مان لیا ہے۔ وہ افغانستان سے اپنی فوج واپس بلانے اور افغانستان کے امور میں مداخلت نہ کرنے پر آمادہ ہوگیا ہے۔
امریکی وفد کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے سہیل شاہین کے ٹوئٹ کے کچھ گھنٹوں بعد یہ وضاحت کی کہ امریکہ طالبان کے ساتھ صرف اپنی فوج کے انخلا پر بات نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ جامع امن منصوبے کا خواہش مند ہے۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں یہ بھی واضح کردیا کہ جب تک تمام باتوں پر اتفاق رائے نہ ہو جائے اس وقت تک یہ سمجھا جائے کہ کسی ایک بات پر بھی اتفاق نہیں ہوا ہے۔